زندگی کچھ ایسی بے معانی ہوگئی ہے (میں اسے مصروف تو نہیں کہتا)کہ انسانوں سے تعلقات ٹوٹتے جا رہے ہیں اور اپنے اپنوں سے بہت ہی دور ہوتے جا رہے ہیں۔انسان بڑی آرزو رکھتا ہے کہ وہ اپنوں سے ملتا رہے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے ٗایک ہی محلے میں رہتے ہوئے آپ اپنے انتہائی قریبی عزیزوں اور دوستوں سے مل نہیں پاتے‘ میں چھوٹے شہروں کے بارے میں تو کچھ عرض نہیں کرتا ٗ اس لئے کہ وہاں تو اللہ کا بڑا فضل ہوگا اور وہاں کے لوگ آپس میں ملتے رہتے ہوں گے لیکن بڑے شہر کچھ اس طرح سے بدنصیبی کی لپیٹ میں آگئے ہیں کہ وہاں پر رشتوں کے جو معاملات ہیں وہ ٹھیک طرح سے طے نہیں ہو پا رہے۔میری ایک خالہ زاد بہن ہے ٗجب ہم چھوٹے تھے تو ہمیں بہت ہی عزیز اور پیاری تھی ٗہم آپس میں کھیلتے تھے اور لڑائیاں کیا کرتے تھے۔ وہ اسی شہر میں ریلوے لائنوں کے اس پاربستی ہے ٗ وہاں رہتی ہے اور میں نہیں جانتا کہ وہ کن حالوں میں ہے۔ اس کے بچے کہاں پہنچ چکے ہیں اس کے خاوند کی پریکٹس اب کیسی ہے؟میں جب بیٹھ کر اس کا تجزیہ کرتا ہوں کہ یہ سب ہو کیسے گیا ہے میں تجزئیے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ مجھے اپنے ہی ایسے کام ہیں کہ جان نہیں چھوٹتی‘ مثال کے طورپر مجھے اپناپراپرٹی ٹیکس درست کروانا ہے جو غلط آگیا ہے میرے کچھ دوسرے ذاتی معاملات ہیں ٗجن میں مصروف ہو ں یا میں نے اپنے ڈرائیونگ لائسنس کو نیا بنوانا ہے کیونکہ پہلے والا زائد المیعاد ہو چکا ہے ٗوہاں جا کر پتہ چلتا ہے کہ میں بہت بوڑھا ہوچکا ہوں ٗ میری Eye Sightٹھیک نہیں رہی۔ میں اپنی نظر چیک کروانے کیلئے جاتا ہوں لیکن اس کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کیلئے مجھے پھر چکر لگانے پڑتے ہیں۔میرا بیٹا لاہور سے ذرا دور رائیونڈ میں رہتا ہے وہاں گیس کی سہولت نہیں ہے ٗ لہٰذا مجھے اسے گیس سلنڈر فراہم کرنے کے لئے اس کے پیچھے رائیونڈ جانا پڑتا ہے ہمارے ملازم کو کتا کاٹ گیا تو اسے چودہ ٹیکے لگوانے کے لئے مجھے ہسپتال جانا پڑا۔ وہاں بھی گیا لیکن ریلوے کے اس پار رہتی اپنی بہن کے پاس نہ جاسکا۔ اس کے اور میرے درمیان جو یہ ساری عام سی چیزیں حائل ہوتی رہتی ہیں انہیں دور نہیں کرسکتا۔مجھے گیارہ کتابوں کے دیباچے لکھنا ہیں ٗمجھے مشاعرے کی صدارت کرنی ہے ٗمجھے کہا گیا ہے کہ یہ جو بڑی بڑی فارمی مونگ پھلی ہوتی ہے یہ گلا پکڑتی ہے اور مجھے اکبری منڈی جاکر چھوٹی اصلی اور دیسی مونگ پھلی تلاش کرناہے ٗمیری بہو مجھ سے کہتی ہے کہ آپ سبزی منڈی جا کر میرے لئے ”بروکلی“ لائیں (اس نے کسی کتاب میں پڑھ لیا ہوگا کہ یہ فائدے کی چیز ہے) میں وہ لے آتا ہوں۔میری روح اور جسم کے درمیان اس طرح کی مصروفیت رہتی ہے میں سارے کام کرلیتا ہوں لیکن اپنی خالہ زاد بہن کے لئے چند منٹ یا گھنٹے نہیں نکال پاتا۔ یہ کوئی بڑی مصروفیات نہیں ہیں لیکن یہ زندگی میں حائل ہوتی رہتی ہیں اور سالہاسال چلتی رہتی ہیں اور میں ریلوے پھاٹک کراس نہیں کرپاتا کہ اپنی بہن کا حال احوال معلوم کرسکوں۔(اشفاق احمد کے نشتر پروگرام سے اقتباس)