مجھے اس وقت کا ایک واقعہ یاد ہے جب میں اٹلی کے دارالحکومت روم میں رہتا تھا اور تب قدرت اللہ شہاب کورس کرنے کیلئے ہالینڈ گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے وہاں سے خط لکھا کہ میں ایک ہفتے کیلئے تمہارے پاس آنا چاہتا ہوں اور میں روم کی سیر کروں گا اور وہاں پھروں گا‘ باوجود اس کے کہ سات دن بہت محدود اور کم عرصہ ہے لیکن کہتے ہیں کہ سات دنوں کے اندر کسی حد تک روم دیکھا جاسکتا ہے تو میں بھی کسی حد تک اسے دیکھنے کیلئے تمہارے پاس آرہا ہوں۔ میں نے کہا ضرور آئیے۔ جب وہ آئے تو تین دن ہم روم کے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومتے رہے اور جتنے بھی وہاں عجائب گھر تھے انہیں دیکھا‘ بہرحال ہم پھرتے اور گھومتے رہے۔
ایک شام بیٹھے بیٹھے قدرت اللہ شہاب کے دل میں آیا اور کہنے لگے‘ میں ”پومپیائی“ (وہ شہر جو ایک بڑے پہاڑ کے لاوے کی وجہ سے تباہ ہوگیا تھا اور اب بھی وہ جلا ہوا اور برباد شہر ویسے کا ویسا پڑا ہے اور لاوے کے خوف سے ایک کتا لاوے کے آگے آگے چیختا ہوا بھاگا تھا لیکن ایک مقام پر آکر لاوے نے اسے بھی پکڑ لیا اور وہ جل بھن گیا۔ چنانچہ اس کا حنوط شدہ وجود اب بھی اسی طرح موجود ہے۔) جانا چاہتا ہوں۔
پومپیائی کے بارے میں میں آپ کو مزید بتاؤں کہ لاوے کے باعث وہاں جس طرح لوگ مرے تھے گرے تھے انہیں بھی ویسے ہی چھوڑا ہوا ہے۔ قدرت اللہ کہنے لگے میں اس شہر کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا کیونکہ پھر مجھے ایسا موقع نہیں ملے گا۔ پومپیائی روم سے کچھ زیاد دور نہیں ہے۔ وہاں جانے میں ٹرین پر غالباً دو پونے دو گھنٹے لگتے ہیں۔ جب ہم وہاں جانے لگے تو کہا کہ میں ایک ایسا جوتا لینا چاہتا ہوں جو بڑا نرم و نازک ہو اور وہ پاؤں کو تکلیف نہ دے تاکہ میں آسانی سے چل پھر سکوں۔
میں نے کہا یہ تو جوتوں کا گھر ہے‘ یہاں تو اعلیٰ درجے کے جوتے ملتے ہیں۔ چنانچہ ہم ایک اعلیٰ درجے کی جوتوں کی دکان پر گئے۔ میں نے دکان والے سے کہا کہ یہ ہمارے ملک کے بہت معزز رائٹر ہیں اور انہیں ایک اعلیٰ قسم کا جوتا خریدنا ہے۔ انہوں نے ہمیں ایک انتہائی خوبصورت‘ نرم اور لچکدار جوتا دکھایا جس کو ہاتھ میں پکڑنے پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ”چرمی“ (کھال) جوتا نہیں ہے بلکہ کپڑے کا ہے اور لچک اس میں ایسی کہ یقین نہ آئے‘ یقین کریں آپ کا ہاتھ سخت ہوگا لیکن وہ جوتا انتہائی نرم تھا۔
اس سے اچھا جوتا میں نے ساری زندگی میں نہیں پہنا‘ ہم وہاں سے پومپیائی کے لئے روانہ ہوئے۔ اب ظاہر ہے پومپیائی ایک پتھریلا علاقہ ہے اس کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی‘ جلی ہوئیں کیونکہ جیسا کسی زمانے میں تھا ویسا ہی پڑا ہوا ہے۔ ہم چلتے رہے‘ کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد ایک پاؤں کا جوتا ٹوٹ گیا اور اس کے ٹانکے اکھڑ گئے۔ وہ انہوں نے ہاتھ میں پکڑ لیا اور ایسے چلتے رہے جیسے بگلا چلتا ہے۔ اب ہاتھ میں جوتا پکڑے اونچی نیچی گھاٹیوں اور پہاڑیوں پر چل رہے تھے کہ تھوڑی دیر کے بعد دوسرے پاؤں کا جوتا بھی جواب دے گیا۔ چنانچہ دونوں کو تسموں سے لٹکا کر انہوں نے پکڑ لیا۔ شام کو ننگے پاؤں واپس آئے۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)