جس زمانے میں روم میں لیکچرر تھا، روم یونیورسٹی میں اور میں سب سے نوجوان پروفیسر تھا، یونیورسٹیوں میں چھٹیاں تھیں، گرمیوں کا زمانہ تھا، دوپہر کے وقت ریڈیو سٹیشن پر مجھے اردو براڈ کاسٹنگ کرنی پڑتی تھی، لوٹ کے آرہا تھاتو خواتین وحضرات روم میں دوپہر کے وقت سب لوگ قیلولہ کرتے تھے، 4بجے تک سوتے تھے اور روم کی سڑکیں تقریباً خالی ہوتی تھیں اور کارپوریشن نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ وہ وہاں پر پانی کے حوض لگاکر سڑکیں دھوتے ہیں اور شام تک سڑکیں ٹھنڈی بھی ہوجاتی ہیں، خوشگوار بھی ہوجاتی ہیں، صاف بھی ہوجاتی ہیں، تو وہ سڑکوں کو دھو رہے تھے، اکا دکا ٹریفک کی سواری آجارہی تھی، تو میں اپنی گاڑی چلاتا ہوا جارہا تھا، اب دیکھئے انسان کے ساتھ ساتھ ایک دیسی مزاج چلتا ہے، آدمی کہیں بھی چلا جائے، تو میں گاڑی چلا رہا تھا میں نے دیکھا کہ گول دائرہ ہے اس کے اوپر سے میں چکر کاٹ کے آؤں گا، پھر میں اپنے گھر کی طرف مڑوں گا تو یہ بڑی بے ہودہ بات ہے، بیچ میں سے چلتے ہیں۔
اس وقت کون دیکھتاہے، دوپہر کا وقت ہے، تو میں بیچ میں سے گزرا، وہاں ایک سپاہی کھڑا تھا، اس نے مجھے دیکھا اور اس نے پروا نہیں کی، جانے دیا کہ یہ جارہا ہے، یہ نوجوان تو کوئی بات نہیں، جب میں نے دیکھا، شیشے میں سے گردن گھما کے کچھ مجھے تھوڑا سا یاد پڑتا ہے۔
میں طنزاً مسکرایا، کچھ اپنی کامیابی کے اوپر۔ میں نے خوشی منانے کیلئے ایک مسکراہٹ کا پھول اس کی طرف پھینکا، جب اس نے یہ دیکھا کہ اس نے میری یہ عزت کی ہے تو اس نے سیٹی بجا کے روک لیا، اب وہاں پر سیٹی بجنا موت کے برابر تھی اور رکنا بھی، میں رکا، وہ آگیا اور آکے کھڑا ہوگیا، پہلے سلیوٹ کیا، ولایت میں رواج ہے کہ جب بھی آپ کا چالان کرتے ہیں۔
آپ کو پکڑنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے آکر سیلوٹ مارتے ہیں، تو اس نے کھڑے ہوکر سلیوٹ مارا، اب میں اندر تھرتھر کانپ رہاہوں، شیشہ میں نے نیچے کیا تو مجھے کہنے لگا کہ آپ کا لائسنس، تو میں نے اس سے کہا میں زبان نہیں جانتا، اس نے کہا، چنگی بھلی بول رہے ہو‘ میں نے کہا‘ میں نہیں جانتا تم ایسے ہی جھوٹ بول رہے ہو، میں تو نہیں جانتاہوں۔
اس نے کہا، نہیں آپ اپنا لائسنس دیں، تو میں نے کہا، فرض کریں جس کے پاس اس کا لائسنس نہ ہو تو پھر وہ کیا کرے، اس نے کہا کوئی بات نہیں، میں آپ کا چالان کردیتا ہوں، پرچی پھاڑ کے تو یہ آپ لے جائیں اور جرمانہ جمع کروادیں، میں تو ایسے ہی مانگ رہا تھا، میں نے کہا، مجھ سے غلطی ہو گئی، اس نے مسکراتے ہوئے کہا غلطی ہو گئی تھی تو چلے جاتے، اس نے بغیر مجھ سے پوچھے کاپی نکالی اور چالان کردیا اور چالان بھی بڑا سخت، بارہ آنے جرمانہ۔ میں نے لے لی پرچی، میں نے کہا میں اس کو لے کر کیا کروں۔
اس نے کہا اپنے کسی بھی قریبی ڈاکخانے میں منی آرڈر کی کھڑکی پر جمع کروا دیں، بس وہاں کچہری نہیں جانا پڑتا، دھکے نہیں کھانے پڑتے، بس آپ کا جرمانہ ہوگیا، آپ ڈاکخانے میں دیں گے تو بس۔ میں جب چالان کروا کے گھر آگیا تو میں نے اپنی لینڈ لیڈی سے کہا، میرا چالان ہوگیا ہے، کہنے لگی، آپ کا۔ میں نے کہا، میں کیاکروں، اب ان کو ایسے لگا کہ ہمارے گھر میں جیسے ایک بڑا مجرم رہتا ہے، اور اس نے اپنی بیٹی کو بتایا پروفیسر کا چالان ہوگیا ہے، بڈھی مائی تھی، ان کی ایک ساس تھی اس کو بھی بتایا، سارے روتے ہوئے میرے پاس آگئے، کہنے لگے تو شریف آدمی لگتا تھا، اچھے خاندان کا اچھے گھر کا لگتا تھا۔
ہم نے تجھے یہ کرائے پر کمرہ بھی دیا ہوا ہے لیکن تو ویسا نہیں نکلا، خیر گھر خالی کرنے کو تو نہیں کہا، جو بڈھی مائی تھی اس کی ساس، اس نے کہا، ہو توگیا ہے برخوردار چالان۔ لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا، محلے داری کا معاملہ ہے، اگر ان کو پتہ چل گیا کہ اس کا چالان ہوگیا ہے تو بڑی رسوائی ہوگی، لوگوں کو پتہ چلے گا، میں نے کہا، نہیں میں پتا نہیں لگنے دوں گا۔
(اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے اقتباس)