صبح کا وقت بڑا سہانا ہوتا ہے صبح کا وہ وقت جب پوپھوٹ رہی ہوتی ہے چڑیاں چہچہا رہی ہوتی ہیں لیکن ایک وہ ہی وقت ہوتا ہے جب سورج کی روشنی اپنی پوری لمبائی کے ساتھ زمین کو چھونے لگتی ہے یہ وقت وقت ہوتا ہے جب ہماری یاد میں بھولے بسرے واقعات بڑی وضاحت اور شدومد کیساتھ ابھرنے لگتے ہیں جب ہم بچپن میں تھے تو اپنے دیگر ساتھیوں سے لڑائی بھی ہوتی تھی‘ناراضگی بھی لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہم میں سے بھی کسی کو بھی اگلے دن کسی کو منانے کی ضرورت پیش آتی ہو یا کوئی گلہ دل میں رہ گیا ہو ویسے ہی ہنستے کھیلتے لڑتے جھگڑتے دن گزر جاتا تھا لیکن اب ہم نے اپنا الگ ہی طرز فکر اختیار کرلیا ہے خواتین وحضرات! میرے ماموں میرے والد صاحب سے بالکل الٹ تھے‘میرے والد میرے ماموں کی نسبت بہت ہی محتاط‘زیرک اور ہرکام کو پرکھ کر کرنے والے تھے جبکہ ماموں بہت کچھ اعتبار اور اعتماد پر چھوڑدیتے تھے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماموں بہت سیدھے سادے یا خدانخواستہ احمق تھے ایسی بات بالکل نہیں تھی ماموں کا اپنا ایک فلسفہ تھا وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ ’تم لوگوں کو اپنے سے اچھا صلہ لے لینے دو‘انہیں تمہیں ٹھگ لینے دو اگر تم ان سے جھگڑا نہیں کرو گے‘ مباحثہ نہیں کروگے وہ صلح جو ہوجائیں گے ہتھیار پھینک دیں گے اچھے اور شریف ہوجائیں گے اور یقین کرنا بیٹا‘انسان اچھا اور شریف ہونا چاہتا ہے لیکن اس کو موقع نہیں ملتا کم ازم انہیں اچھا ہونے کا موقع ضرور فراہم کرنا‘۔اس وقت تو میں ماموں کی اس بات کو اس طریقے سے نہیں سمجھ پاتا تھا میں اب محسوس کرتا ہوں کہ میں ان باتوں کو کچھ کچھ سمجھنے لگا ہوں کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو خرابی ہم میں موجود ہوتی ہے‘ہم خیال کرتے ہیں کہ یہ خرابی ضرور دوسروں میں بھی ہوگی میں آپ کو ایک دلچسپ بات سناتا ہوں میں جب بجلی‘ ٹیلیفون یا کوئی اور بل وغیرہ جمع کرانے کے لئے بینک کی اس کھڑکی پر کھڑا ہوتا ہوں جہاں لوگ صبح سویرے آن کرہی کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ وہ بل جمع کروا کراپنے اپنے کاموں کی طرف جاسکیں خواتین وحضرات! میں ان لائنوں میں کھڑے بزرگوں‘نوجوانوں اور خواتین کو دیکھتا ہوں تو مجھے ناگوار گزرتا ہے گو مجھے زیادہ اس لئے برا لگتا ہے کہ میں بھی ایسے ہی لوگوں کی صف میں کھرا ہوتا ہوں بل جمع کرانے والوں کی صورتحال دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ لوگ پیسے جمع کرانے نہیں آئے بلکہ انہیں یہاں سے مفت میں پیسے مل رہے ہیں یا کوئی کچھ مفت میں بانٹ رہا ہے اس صورت حال میں آن لائن میں کھڑے میرے جیسوں کو سب سے زیادہ کوفت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی صاحب بینک کے بڑے دروازے میں سے آکر بل جمع کرنے والے کیشیئر کو تھما کر چلا جاتا ہے بات کدھر سے کدھر نکل گئی میں جب بینک کی کھڑکی پر کھڑا بل جمع کروارہا ہوتا ہوں تو کئی بار میرے ذہن میں خیال آتا ہے کہ میں نے اپنے یوٹیلیٹی بلز کے جو پیسے کیشیئر کو تھما دیئے ہیں یہ ہی نہ ہو کہ وہ پیسے لے کر یہ کہے کہ آپ نے تو مجھے پیسے دئے ہی نہیں اب میرے پاس اسے پیسے دینے کی کوئی رسید بھی نہیں اور میں کیسے کسی اور کو یقین دلاؤں گا کہ میں نے واقعی کیشیئر کو پیسے دے دیئے ہیں لیکن وہ کیشیئر بڑا ہی ایماندار ہوتا ہے اس نے میرے گہرے خدشات کے باوجود آج تک مجھے نہیں کہا کہ میں نے اسے پیسے ادا نہیں کئے ہمارے انگریزی کے استاد ہمیں کہا کرتے تھے کہ تم اپنے اندر اپنے بچپن کو کبھی نہ مرنے دینا اس طرح تم بوڑھے نہیں ہوگے اگر تم اپنے بچپن کو اپنے اندر سنبھال کر نہ رکھ سکے تو پھر تمہیں بوڑھے ہونے سے کوئی روک نہیں پائے گا شاید ضرورت ہے کہ ہم سب اپنے اندر بچپن کی وہ خوبیاں اجاگر کریں جو نفرت‘حسد اور اس جیسی برائیوں سے پاک ہوتی ہیں محبت بچپن کا خاصا ہے معصوم شرارتیں اور بونگیاں ذہنی تندرستی کے لئے بہت ضروری ہیں۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)