بچپن کی یادیں۔۔۔۔۔

جب ہم اپنے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا ماضی کچھ اتنا ناقص بھی نہیں تھا جتنا ہمیں بتایا جارہا ہے اب تقابلی مطالعہ میں میرے اور میرے پوتے کے سکول میں بڑا فرق ہے میری تعلیم کا جو سلسلہ تھا اس میں اور آج کی تعلیم میں بڑا فرق ہے میری تربیت کے جوچوکٹھے تھے اور آج کی تربیت کا جو چوکھٹا ہے اس میں نمایاں فرق ہے جن لوگوں نے اپنے ماضی کو ٹیک بناکر اور اس سے شرمندگی نہ اختیار کرکے اپنی زندگی میں اس ماضی کودخیل کیا ہے تو وہ یقینا کامیابی کیساتھ اپنا یہ سفرطے کریں گے جب میں اپنا ماضی یاد کرتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ میرا ماضی جس میں میرا سکول‘ ماں باپ‘ بہن بھائی ہیں اس ایک ایسی اچھی تصاویر موجود ہیں جو میری بڑھاپے کی اور آخری زندگی بسر کرنے کیلئے بڑی مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں میں اپنے ماضی پر شرمندہ ہرگز نہیں ہوں باوجود اس کے ہمارا گھرانہ غریب تھا‘ہم کوئی بڑے امیر آدمی نہیں تھے میری ماں کو بہت کام کرنا پڑتا تھا اتنا زیادہ کہ آج کی جو خواتین کے حقوق کی تحریکوں کی جو بڑی لیڈر ہیں اگر انہیں دیکھتیں تو بے ہوش ہوکے گر جاتیں میری ماں دوبھینسوں کا دودھ دوہتی تھی پھر انکا چارہ ایک بڑے چکر والے ٹوکے پر سے کترتی تھی اور اسکی بڑی خواہش ہوتی تھی اور کہتی تھی کہ اس ٹوکے کے منہ پر چارہ لگادو ہم ایک بار تو لگاتے تھے پھر کھسک جاتے تھے پھر وہ خود ہی ٹوکے کے منہ پر چارے کی ’پولی‘لگاتی اور خود ہی اس چکر کو ’گیڑتی‘ گھماتی تھی وہ یہ سارا کام بڑی خوش دلی  سے کرتی تھی اسکے ماتھے پر کبھی سلوٹ نہیں آئی وہ تھکی ضرور ہوتی تھی لیکن بے زار نہیں ہوتی تھی میں اکیلی اپنی ماں کا ذکر نہیں کرتا ہوں اسوقت وہاں جتنی بھی مائیں تھی اتنا ہی کام کرتی تھیں ہمارا محلہ ہمارا قصبہ‘لوگ ہم چھوٹے دوست ماؤں کے حوالے سے ہی جانے جاتے تھے‘مجھے یاد آرہا ہے کہ میرے بڑے بھائی پڑھنے میں ہم سے بہتر تھا  وہ تعلیم کے معاملے میں بہت مستعد بھی تھا اس کا مقابلہ اسکے ہم جماعت بلونت کمار سے تھا وہ فرسٹ آتا تھا میرا بھائی سیکنڈ آتا تھا میرے والد نے میرے بھائی سے کہا کہ یار شرم کر‘وہ دبلا پتلا سا نالائق لڑکا ہے اور تو موٹا تازہ صحت مند ہے تمہارا سیکنڈ آنا تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے میرے بھائی نے بہت زور لگایا اور محنت کی اور وہ فرسٹ آگیااس زمانے میں سائیکالوجی نہیں ہوتی تھی ماں بیٹے کا اور باپ بیٹی سے اولاد کا ایک سیدھا رشتہ ہوتا تھا وہ اپنے تعلق سے ایسے موڑ لیتے تھے‘ڈھال لیتے تھے جیسا کمہاریا کوئی کوزہ گرچاک پر مٹی کو اپنے مطابق کرلیتے تھے اور جب اس کو بجا کر دیکھا جاتا تھا تو کسی طرف سے اسکی آواز خراب نہیں ہوتی تھی یہ ساری خوبیاں ان لوگوں میں موجود ہوتی تھیں اور وہ ہمارے ساتھ مل کر‘بچوں کیساتھ مل کرا تنی ہی محنت کرتے جتنی بچے اپنی طرز پر کرتے‘ ہمیں مولڈ کرتے تھے کہ ہمیں ان سے کوئی گلہ یا شکایت نہیں ہوتی تھی اسوقت کسی بچے نے یہ نہیں کہا کہ ’اے ماں باپ اگر تونے مجھے اسوقت ٹو کا ہوتا تو میں آج جرائم پیشہ نہ ہوتا۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)