بائیس اپریل کو امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ Kenneth McKenzie General نے پینٹا گون کے بریفنگ روم میں صحافیوں سے گفتگو میں افغان اور عراق جنگوں کے بارے میں امریکی حکمت عملی کی وضاحت کی سینٹرل کمانڈ کے دائرہ کار میں وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء سے لیکر مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک کے ممالک آتے ہیں یہ ادارہ ان خطوں میں لڑی جانے والی جنگوں کی براہ راست نگرانی کرنے کے علاوہ انکی سمت کا تعین بھی کرتا ہے اس پریس بریفنگ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسمیں امریکی صحافیوں کے علاوہ عرب ممالک کے اخبار نویسوں نے بھی فون پر جنرل میکنزی سے سوالات پوچھے فور سٹار امریکی جنرل نے بڑے تحمل اور برد باری سے تین گھنٹے تک منجھے ہوئے اور تجربہ کار صحافیوں کے مشکل سوالات کے جوابات دیئے اس بریفنگ سے ایک روز پہلے جنرل میکنزی نے کیپیٹل ہل میں ہاؤس اور سینٹ کمیٹیوں کے اراکین سے افغان جنگ کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔ جنرل میکنزی کی اخبار نویسوں سے گفتگو گزشتہ ایک ہفتے سے عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے یوں لگتا ہے کہ استنبول میں طالبان کی عدم شرکت کی وجہ سے منسوخ ہونیوالی کانفرنس نے امریکہ کے امیج کو جو نقصان پہنچایا ہے اسکا ازالہ کرنے کیلئے جنرل میکنزی کو نئی امریکی حکمت عملی کی وضاحت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔کیپیٹل ہل اور پینٹاگون میں پوچھے گئے سوالات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی قیادت اور میڈیایہ جاننا چاہتے ہیں کہ یکم مئی کو آخری امریکی فوجی کی افغانستان سے واپسی کے بعدصدر بائیڈن افغان سرزمین کو القاعدہ کی دخل اندازی سے کیسے بچا ئیں گے‘ باقی کی دنیا کیلئے القاعدہ اگر چہ کہ ایک قصہ پارینہ ہو چکی ہے مگر امریکی میڈیا پر ہونے والے مباحثوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم بہت جلد افغانستان میں ڈیرے ڈال دیگی۔پریس بریفنگ میں ایک امریکی صحافی نے پوچھا کہ نیٹو افواج کے افغانستان میں ہوتے ہوئے اگر افغان فوج اپنی حکومت کا دفاع نہیں کر سکتی تو یکم مئی کے بعد یہ کیسے کابل کو طالبان کے حملوں سے بچائے گی اور طالبان اگر ایک فوجی فتح کے بعد کابل پر قبضہ کر لیتے ہیں تو اس صورت میں انہیں کیسے دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرنے سے روکا جا سکے گا۔جنرل میکنزی نے جواب دیا کہ ہم ہر صورت میں افغان فوج کی مدد کرتے رہیں گے یہ کام اگر چہ کہ اب اتنا آسان نہ ہو گا جتنا کہ پہلے تھا مگر ہمیں نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے تا کہ افغان فوج کی بروقت امداد کر کے اسے شکست سے بچایا جا سکے جنرل میکنزی سے جب ”نئے راستوں“ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتکار وسطی ایشیا کی حکومتوں سے بات چیت کر رہے ہیں تا کہ انکے تعاون کیساتھ اس کمی کو پورا کیا جائے جو نیٹو افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں پیدا ہو گی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے کہا ”We are going to try all kinds of innovative ways to help them. We want them to be successful, that remains a very high priority" صحافیوں کے مزید استفسار پر جنرل میکنزی نے کہا کہ تاجکستان‘ ازبکستان‘ ترکمانستان اور قازکستان سے بات چیت ہو رہی ہے مگر ابھی تک کسی سے کوئی معاہدہ نہیں ہواامریکی جنرل نے یہ بھی کہا کہ چند خلیجی ممالک میں بھی ہماری Bases ہیں مگر ہم فاصلوں کو کم کرنا چاہتے ہیں تا کہ جلد از جلد افغان فوج کو ہوائی کمک پہنچائی جا سکے ایک موقع پر جنرل میکنزی نے یہ بھی کہا کہ جنوبی ایشیا میں اگر امن قائم نہیں ہوتا تو اسکا اثر خطے کے تمام ممالک پر پڑیگا اور پاکستان پر اسکے اثرات سب سے زیادہ ہوں گے ان سے پوچھا گیا کہ اگر افغانستان میں حالات زیادہ خراب ہو گئے تو کیا امریکی افواج دوبارہ بھیجی جا سکتی ہیں انکا جواب یہ تھا کہ ہم وہاں واپس جانے کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ہم نے ایسی کوئی حکمت عملی وضع کی ہے‘ نظر یہی آرہا ہے کہ اب امریکہ سامنے آکر لڑنے کی بجائے پردے کے پیچھے سے افغان فوج کی بھرپور مدد کریگا تاکہ وہ طالبان کا مقابلہ کرتی رہے اس منصوبے کو واشگاف الفاظ میں بیان کرنے کا مطلب یہی ہے کہ امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادی افغانستان کے معاملات کو اسلئے اپنی دسترس میں رکھنے کی کوشش کریں گے کہ ایک مرتبہ پھر اس سرزمین کو ان پر حملے کیلئے استعمال نہ کیا جائے اسکا اندازہ جنرل میکنزی کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیٹو افواج نے گذشتہ بیس برسوں میں القاعدہ کو افغانستان کی سرزمین سے امریکہ پر نیا حملہ کرنے نہیں دیا انکے مطابق یہ ایک ایسی کامیابی ہے جسے برقرار رکھا جائیگا بعض دفاعی ماہرین نے صدر بائیڈن کی نئی حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوے کہا ہے کہ اب تک افغان کمانڈوز کا نیٹ ورک امریکی افواج کو طالبان کے بارے میں اہم معلومات مہیا کرتا رہا ہے اب امریکہ کی واپسی کے بعد یہ نیٹ ورک یا تو ٹوٹ جائیگا اور یا اتنا فعال نہیں رہے گا کہ افغان فوج کی مدد کر سکے اسکے جواب میں کہا گیا ہے کہ ترکی جو کہ نیٹو کا ممبر ہے کے فوجی افغانستان میں رہیں گے اور سی آئی اے کو القاعدہ کے کسی بھی نئے سیل کے بارے میں معلومات مہیا کرتے رہیں گے صدر بائیڈن نے چودہ اپریل کو ایک بیان میں کہا کہ We will not take our eyes off the terrorist threat یعنی ہم دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے اپنی نظریں نہیں ہٹائیں گے اسکے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اپنی کاؤنٹر ٹیرر ازم صلاحیتوں میں مزید اضافہ کریں گے اور خطے میں اپنے اثاثوں کو بروئے کار لائیں گے تا کہ ہم اپنی سرزمین کو کسی بھی نئے خطرے سے محفوظ رکھ سکیں صدر بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت کی کوششیں جاری رکھے گا تا کہ افغانستان میں امن قائم کیا جا سکے صدر بائیڈن اور انکے وزراء نے افغان جنگ کے بارے میں جتنے بھی بیانات دیئے ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں جنگ ہو یا امن امریکہ کسی بھی صورت میں اس تباہ حال ملک کو اسکے حال پر نہیں چھوڑے گا بلکہ اسکے معاملات میں مداخلت جاری رکھے گا اس نئی صورتحال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے‘ امریکہ کی پاکستان سے کیا توقعات ہیں اور آجکل پاکستان اور انڈیا میں مذاکرات کا جو سلسلہ چل رہا ہے اسکا اس نئی صورتحال سے کوئی تعلق ہے یا نہیں اس پر اگلے کالم میں بات ہو گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی