نفسانفسی کا دور نفسانفسی کا دور۔۔۔۔۔

ہم نفسا نفسی میں کیوں مبتلا ہیں؟ آج میں آپ سے یہی پوچھنے آیا تھا اور اب میں آپ سے ضرور پوچھوں گا اسلئے کہ آپ مجھ پر الزام دیتے ہیں کہ آپ ہی بات کئے جاتے ہیں ہم زیادہ بہتر بات کرسکتے ہیں یقینا آپ زیادہ بہتر بات کرسکتے ہیں یہ بتائیے کہ کیا ہم لوگ عام لوگ ساری دنیا کے لوگ سوچنے میں سمجھنے میں غور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے۔بالکل رکھتے ہیں لیکن ہم چیزوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں چیز میں مکان بھی ہے پیسا بھی ہے ٹی وی بھی ہے موٹر کار بھی ہے صرف موٹر کار نہیں اچھی موٹر کار ہے اس سے بہتر موٹر کار، ہم چیزوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں‘آپ کا جو ٹیلی ویژن پروگرام ہو رہا ہے سب سے پہلے تو ہمیں یہی بھگا رہا ہے چیزوں کے پیچھے کیونکہ اس کے پروگرام جو ہیں ان پروگراموں میں جو ٹائم ہے اس ٹائم میں سے آدھا ٹائم یہی ہوتا ہے کہ آپ فلاں چیز خریدیں فلانی چیز خریدیں‘ان میں ٹی وی کمرشل کا بڑا ہاتھ ہے دیکھیے! کیسا اچھا ٹاک شو ہو گیا ہے آپ ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جو آپ کی من چاہی چیزیں ہوتی ہیں بالکل تمنا کیساتھ ساتھ چلتی ہیں جن چیزوں کو آپ نہیں پسند کرتے یا جو آپکے تفاخر میں اضافہ نہیں کرتی ہیں ان چیزوں کو آپ چھوڑ دیتے ہیں تو یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے کہ جتنی آسانی کے ساتھ ہم نے کہا۔میرے اباجی تھے اور میرے دادا تھے ان کی روح کا گلا تو نہیں دبا تھا اب یہ کیوں دب گیا ہے اس وقت ترغیب کے چانسز اور مواقع کم تھے کیونکہ میڈیا کا پھیلاؤ کم تھا اس وقت تعلیم پانا ضروری تھا میں جا کے ٹی وی دیکھتا ہوں اور ٹی وی پر کسی اچھی چیز کے پراڈکٹ کااشتہار دیکھتا ہوں اور میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے میں اس کو خریدوں تو کیا لوگ سوچنے سمجھنے اور غور کرنے پر اپنے آپ کو مامور کرتے ہیں؟ یہ آج کا سوال ہے لوگ سوچ رہے ہیں دو طرح سے ایک دائرے کے لوگ ہیں جو لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق سوچنے پر مائل کررہے ہیں ایک وہ دائرہ ہے جو ان کے تابع ہو چکا ہے اور ان کا اسیر ہے اور جس طرف وہ پہنچانا چاہتے ہیں اس طرح سے لوگ سوچتے چلے آرہے ہیں اب اس میں مجھے ایسا لگتا ہے جیسا کمرشلائزیشن میں چیزوں کے اندر کشش اس قدر ہے کہ وہ مقناطیس کی طرح ہمیں کھینچ لیتی ہے اور اس معاشرے میں جس میں ہم آج موجود ہیں اور زندہ ہیں اس میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ہماری ہی کوتاہیوں کے باعث بہت ساری  منفی چیزیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اب ہم لوٹ نہیں سکتے میں لوٹ کے پھر اس طرف آؤں گا اور بار بار ایک سکول ٹیچر کی طرح رہوں گا کہ کیا ہم سوچنے سمجھنے کی طرف مائل ہوتے ہیں یا نہیں آپ تو یہ  کہتے  ہیں کہ  ہم بالکل سوچتے سمجھتے نہیں ہیں جیسی بنی بنائی چیزیں ہمیں دی جاتی ہیں ان کے پیچھے بھاگتے ہیں۔(اشفاق احمد کے پی ٹی وی پر نشر پروگرام سے اقتباس)