دوستوں کی یاد۔۔۔۔۔

انسانی یادوں میں ایک ساتھ کام کرنیوالے اور سرد وگرم حالات میں ساتھ رہنے والوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی لکھتے ہیں‘ میرے ہوتے ہوئے یاور عباس نے دو قابل ذکر پروگرام پیش کئے ان میں سے ایک کا عنوان تھا اردو کے یورپین شاعر’اور دوسرا دنیا کی تاریخی تقریروں سے ترتیب دیاگیا تھا اس میں تمام تر صدا کاری سعید جعفری نے کی تھی جو اپنی اداکاری کی تربیت کی بنا پر آواز کو کرداروں کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔دوسرے سینئر ساتھیوں میں تقی احمد سید تھے وہ بھی اردو سروس کے پرانے رفقا میں سے ایک تھے حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کیا کرتے تھے اور وہ جو وضعدار لوگ ہوا کرتے تھے ان کی جیتی جاگتی مثال تھے ان کے بعد اطہر علی اور وقار احمد تھے اطہر علی دہلی کالج  کے تعلیم یافتہ تھے‘بہت ذہین اورہنر مند تھے‘ ریڈیو سے حالات حاضرہ کے پروگرام پیش کیا کرتے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے موقع پر انکے پیش کئے ہوئے پروگرام کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی ایک مرتبہ انہوں نے پاکستان کے حالات پر کوئی پروگرام نشر کیا ان دنوں ضیاء الحق فوجی حاکم تھے ذرا ہی دیر بعد ضیاء الحق کا راولپنڈی سے ٹیلی فون آیا اور انہوں نے اطہر صاحب کو مبارکباد دی آخری دنوں میں وہ اردو سیکشن کے سربراہ ہوگئے تھے ان سے پہلے یہ اعزاز صرف سفید فام حضرات کیلئے مخصوص تھااطہر صاحب کے دوستوں کا بڑا حلقہ تھا اور عجب اتفاق ہے کہ دو ایک کے سوا اس حلقے کے سارے احباب رخت سفر باندھ چکے ہیں مجھے کراچی سے کچھ دور ٹھٹھہ کے ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا، گاؤں کے کچے پکے مکان تو اونچی جھاڑیوں کے گھیرے میں چھپے ہوئے تھے، ان کا مہمان خانہ گاؤں سے باہر بناہوا تھا جہاں سرشام چارپائیاں ڈال دی گئی تھیں، لوگ مجھے گھیرے بیٹھے تھے اور مزے مزے کی باتیں ہو رہی تھیں، کسی بات پر میں نے قہقہہ لگایا، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ گاؤں کے اندر چارسال کاایک بچہ میرا قہقہہ سن کر چونکا اور ماں سے اپنی سندھی زبان میں کہا کہ وہ ریڈیو والا آگیا۔شاہین کلب کی چٹ پٹی باتوں میں سدھو بھائی کا حلوے کا شوق بہت رنگ بھرتا تھا، ان کے مکالموں میں حلوے کا ذکر ضرورآتا تھا۔ ہمارے ساتھی علی احمد خان جب بی بی سی لندن میں ملازم ہوکر آئے اور ان کے بچے بھی لندن آئے تو بچوں نے اپنے ابا سے پوچھا کہ کیا ہم سدھو بھائی سے مل سکتے ہیں، سدھو بھائی کو دعوت دی گئی، ان کیلئے مزے مزے کی چیزوں کے علاوہ بہت سا حلوہ پکایا گیا اور سدھو بھائی کے سامنے سجا دیا گیا، تب یہ بھید کھلا کہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں اور حلوہ یا کوئی بھی مٹھائی نہیں کھاسکتے۔بچوں نے حیران ہوکر پوچھا”سدھو بھائی، پروگرام میں وہ سب کہنے کی باتیں تھیں؟“کچھ جھینپ کر اور کچھ شرما کر بولے ”ہاں“۔ایسی شخصیت تھی ان کی۔ ان کا کمال مکالموں کی ادائیگی میں تھا، ان کی زبان میں ایک ذرا سی لکنت تھی جسے وہ اس خوبی سے چھپاتے تھے کہ ان کی باتوں میں ایک عجیب سا لطافت کا رنگ بھر جاتا تھا، اسی بناء پر لاکھوں سننے والوں کے چہیتے تھے۔ایک روز یہ ہوا کہ ان پر جنہیں ہم لوگ سدھو بھائی نہیں بلکہ شاہ صاحب کہتے تھے، فالج کا حملہ ہوا، انہیں ہسپتال پہنچایاگیا جہاں انہیں فالج کے تمام مریضوں کی طرح لٹالیاگیا اور وہ پروگرام سے غیر حاضر ہو گئے، ہم نے سننے والوں کو بتایا کہ سدھو پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں داخل کردیئے گئے ہیں۔یہ اعلان ہونا تھا کہ سننے والوں خصوصاً بچوں کے خطوں کا تانتا بندھ گیا، اتنی دعائیں، اتنی دعائیں کہ شمار کرنا دشوار ہوگیا، ہم نے یہ کیا کہ ان خطوں کے تھیلے بھر بھر کر ہسپتال پہنچانے شروع کردیئے، شاہ صاحب بستر پر لیٹے لیٹے دن بھر وہ خط پڑھا کرتے، دعاؤں کا یہ سلسلہ تھمنے کانام نہیں لے رہا تھا، ادھر ڈاکٹروں نے محسوس کیا کہ شاہ صاحب کی حالت سنبھل رہی ہے، شاہ صاحب دو تین مہینوں کے اندر صحت یاب ہو کر کام پر واپس آگئے، ڈاکٹر حیران رہ گئے کہ اتنی تیزی سے صحت یابی کیسے ہو گئی، شاہ صاحب ایک سال بعد طبی معائنے کیلئے ہسپتال گئے اور واپس آکر بتایا کہ جو مریض ایک سال پہلے داخل تھے وہ اب بھی داخل ہیں۔