شاندار عمارتوں کے کھنڈر 

 شیر شاہ اور ہمایون کی موت نے دہلی کے ایک دور کا خاتمہ کردیا ہمایون کے بعد اکبر آگرے چلا گیا اور جہانگیر اپنا پایہ تخت اٹھا کر لاہور لے گیا خود شیر شاہ کا لنجر میں مرا اور سہسرام میں دفن ہوا‘ البتہ ہمایون شیر منڈل سے کچھ دور حضرت نظام الدین کے مزار کے قریب جمنا کے کنارے دفن کیاگیا‘ اسکا مقبرہ عبرت کی جا ہے کہ اس میں ایک بادشاہ ہی نہیں آخر ہچکیاں لیتا ہوا ایک پورا دور دفن ہوا اور اسکے ایک تاریک کمرے میں صرف ایک برہنہ سر‘ پریشان حال حکمران ہی نے نہیں ایک عہد نے زنجیریں پہنیں۔ مغلوں کی سب سے پہلی قابل ذکر عمارت‘ہمایون کا یہ مقبرہ ہے ہمایون کے انتقال کے آٹھ نو سال بعد ہمایون کی بیوی حاجی بیگم نے جن کو بیگہ بیگم بھی کہتے ہیں یہ مقبرہ تعمیر کرایا اسکے بعد جو یہاں دوسری بہت سی قبریں ہیں انکے متعلق جو باتیں سنتے ہیں ان سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ مغلوں کے عروج کے زمانے میں اس عمارت کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہی بس یہ ایک دلکش مقام رہا لیکن جب مغلوں کا زوال ہوتا ہے تو اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ اس زوال میں ہمایون کے مقبرے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور زوال کے زمانے کے جو بادشاہ تھے‘شہزادے تھے اور شہزادیاں تھیں وہ سب لاکر یہیں دفن کئے گئے‘ مثلاً فرخ سیر‘ عالمگیر ثانی‘رفیع الدولہ‘رفیع الدرجات اس طرح کے بادشاہ جو بہت ہی غیر اہم تھے ان کی قبریں یہاں بنائی گئیں اور وہ اتنے غیر اہم تھے کہ ان پر لوح مزار بھی نہیں لگائی گئی داراشکوہ کی قبر بھی کہتے ہیں یہیں ہے‘ باہر چبوترے پر‘آسمان کے نیچے اس پر بھی کوئی کتبہ یا سنگ مزار نہیں‘ آئیے آگے چلیں دیکھئے جو کمرہ ہے جس میں اب ہم داخل ہورہے ہیں یہ وہ کمرہ ہے جہاں مغل حکومت کا سورج ڈوبا تھا بہادر شاہ ظفر کو ہڈسن نے اسی کمرے سے گرفتار کیا تھا اس وقت بہادر شاہ ظفر کیساتھ زینت محل‘جواں بخت جو ان کا شہزادہ اور ولی عہد تھا اور دوسرے شہزادے تھے یہاں سے ان سب کو گرفتار کرکے لے جایا گیا ان میں سے تین شہزادوں کو توراستے ہی میں قتل کرکے ان کی لاشیں کابلی دروازے پر لٹکا دی گئیں اور زینت محل اور بہادر شاہ ظفر اور جوان بخت پر مقدمہ چلایا گیا تھا اور ان تینوں کو پھر رنگون بھیج دیاگیا تھا یہ اہمیت ہے اس ہمایون کے مقبرے کی اور یہ اہمیت ہے اس چھوٹے سے تاریک کمرے کی جہاں مغل حکومت کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوا تھا۔آگرے سے کافی باہر ہی سے اکبر اور شاہ جہاں کے زمانے کی شاندار عمارتوں کے کھنڈر شروع ہوجاتے ہیں۔ کیسی کیسی حویلیاں رہی ہوں گی‘ اب خار زاریں ہوگئی ہیں۔ مجھے آگرے کے نامور شاعر اور دانشور مکیش اکبر آبادی صاحب سے ملنا تھا۔ وہ پرانے وقتوں کی نشانی ہیں اور اردو ادب میں ان کا بڑا رتبہ ہے۔ پرانے شہر میں کہیں کوئی سیو کا بازار ہے۔ اس کے اندر میوہ کڑا ہے‘ اس میں رہتے ہیں۔ چنانچہ میں پرانے شہر کی طرف چلا۔ اکبر اور شاہ جہاں کے قلعے کی شوکت و عظمت کو سراہتا‘ جہاں آراء بیگم کی مسجد کے تین بڑے بڑے گنبدوں کی سربلندی کا دم بھرتا میں آگے بڑھا۔ اس کے بعد آگرے کے بازار آگئے۔ کناری بازاری‘ سیو کا بازار‘ جوتے چپلوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی دکانیں‘ سلے سلائے کپڑوں سے بھری ہوئی دکانیں‘ پانچ ڈالر میں دن گزارنے والے پھٹے حال گورے نوجوان کے لئے سستے ہوٹل‘ متھرا کے پیٹھے سے لے کر برف پر آراستہ مکھن کے پیڑوں تک سو طرح کی مٹھائی بیچنے والے حلوائی اور پھر آگرے کی چاٹ کی دکانوں میں تلی جانے والی آلو کی ٹکیوں کی نہایت لذیذ مہک۔ ان منظروں سے گزرتے ہوئے بازاروں اور گلیوں کے فرش پر جو نگاہ گئی تو دیکھا کہ جن سرخ پتھروں سے شاہ جہاں کے قلعے بنے تھے‘ ویسے ہی سرخ پتھروں کی لمبی لمبی سلوں سے یہ گلی کوچے پختہ کئے گئے تھے۔ یہ پتھر اس خوبی سے جمائے گئے تھے کہ کئی سو برس کی کوئی بارش‘ کوئی سیلاب چار چار چھ چھ فٹ لمبی ان سلوں کو اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکا۔ لیکن نئے دور میں جب پانی کی فراہمی اور نکاسی کیلئے نالیاں اور پائپ ڈالنے کی ضرورت پڑی تو غضب ہوگیا۔