معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنے ایک سفر نامے میں سکردو سے متعلق لکھتے ہیں کہ جرات مند ہوا باز طیارے کوسکردو لے گیا‘اس روز شہر سکردو یوں لگا جیسے ایک کشادہ پیالے کی تہہ میں کوئی موتی پڑا ہو‘ لداخ کے بعد سکردو آکر یوں لگا جیسے کسی پرانے زمانے کے انسان کواٹھا کر جدید زمانے میں اتار دیا جائے سکردودنیا سے الگ تھلگ او ر کٹا ہوا علاقہ تھا اب نہیں ہے‘ کراچی کی بندرگاہ سے بار بردار ٹرک چل کرسکردو پہنچ جاتے ہیں اوریہ شاندار سڑک سال کے بارہ مہینے کھلی رہتی ہے۔ سڑک کے ساتھ زمانے کی زیادہ تر نعمتیں اس علاقے میں پہنچنے لگی ہیں اوریہاں پیداہونیوالی بے مثال خوبانی جو کثرت سے پیداہوتی تھی اور درختوں سے گر کر سڑ جاتی تھی‘ اب خشک کرکے دنیا بھرمیں پہنچائی جا رہی ہے‘اسی طرح جدید تعلیم بڑے سلیقے سے اس سر زمین پر آ گئی ہے‘میں کئی لڑکیوں سے ملا جو خوب پڑھ لکھ گئی تھیں اور اعلیٰ تعلیم کیلئے نیچے شہروں میں جانے کے منصوبے بنا رہی تھیں‘ان سے ان کے استادوں نے کہا کہ تم چلی جاؤگی تو بلتستان کی لڑکیوں کو کون پڑھائے گا؟ چنانچہ وہ یہیں ٹھہر گئیں اوراب علم کے چراغ گھر گھر روشن ہورہے ہیں۔ بس ایک غضب ہوا‘ماضی کے وزیراعظم محمد خا ن جونیجو نے پورے ملک میں تعلیم عام کرنے کیلئے نئی روشنی کے نام سے بے شمار سکول کھول دئیے تھے یہ نظام چل نکلا تھا اور بلتستان کی سڑکوں پروقت ضائع کرنیوالے ہزاروں بچے جماعتوں میں جا بیٹھے تھے یہ صورتحال وہاں اوپر پہاڑوں پرتھی جہاں کے نیک صفت باشندے دیانتداری سے نئی روشنی کی لو اونچی کر رہے تھے لیکن نیچے میدانوں میں یہ ہوا کہ نئی روشنی کے تعلیمی نظام میں بلا کی بدعنوانی اور بددیانتی شروع ہو گئی جو اتنی بڑھی کہ حکام نے نئی روشنی کی پوری بساط لپیٹ دینے کا فیصلہ کیا اس فیصلے کی زد میں آکر بلتستان کے سکول بھی بند کر دئیے گئے اور نہ صرف سینکڑوں اساتذہ بلکہ ہزاروں بچے بھی ہاتھ ملتے رہ گئے‘میں نے اپنے پروگرام کیلئے بہت سے انٹرویو ریکارڈکئے اوران سے بھی زیادہ محبت سمیٹی‘مگر جو انٹریو مجھے یاد رہے گا وہ ڈاکٹریاسمین ممتاز کا تھا‘اصل میں تو وہ علاقے کے ڈپٹی کمشنر کی اہلیہ تھیں مگر کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں تعلیم پاچکی تھیں اس علاقے میں آئیں تو دیکھا کہ پردہ دار اورباحیا خواتین کومر جانا منظور ہے مگر مرد ڈاکٹر سے علاج کرانا گوارہ نہیں‘اوپر سے غضب یہ کہ سردی کی وجہ سے بیمار رہتی ہیں اورگھر گر ہستی کی ذمہ داریاں اٹھاتے اٹھاتے ان کے پھیپھڑے چھلنی ہو جاتے ہیں‘ ڈاکٹریاسمین ممتاز نے انکا علاج شروع کیا تو مریض خواتین کی قطاریں لگ گئیں‘ میں نے کسی ڈاکٹر کو خلق خدا کی اتنی خدمت کرتے ابھی تک نہیں دیکھا تھا انہوں نے علاقے کی عورتوں کے بارے میں آنکھیں کھول دینے والی تفصیلات بتائیں۔پروفیسر امداد حسین بیگ صاحب کی شخصیت بڑی دلچسپ ہے‘انکے گھر میں درجنوں موٹے موٹے البم ہیں جو دنیا بھر کے سیاستدانوں کی تصویروں سے بھرے پڑے ہیں‘ اس روزپرانے پشاور کی باتیں بتا رہے تھے‘ کہنے لگے کہ یہاں قدیم خاندان آباد تھے اور دور دور سے لوگ چلے آتے تھے‘پنجاب‘ یوپی اور بنگال تک سے لوگ آتے اور یہیں رہ گئے۔ تجارت بہت تھی‘ آب و ہوا اچھی تھی‘ زمین آسانی سے دستیاب تھی‘چنانچہ پشاور کی آبادی بڑھتی گئی اب افغانستان میں روسیوں کا عمل دخل ہوا تو نئی قسم کے مہاجرین کی نئی لہر آئی ہے امداد حسین بیگ صاحب نے بتایا۔’لاکھوں کی تعداد میں افغان اپنا وطن چھوڑ کر پشاور آگئے ہیں اور پھر پشاور سے آگے جوں جوں انہیں موقع ملتا ہے‘وہ پنجاب کی طرف بڑھ رہے ہیں اور حکومت بھی انکی پوری امداد کررہی ہے‘انکی رہائش کیلئے‘تو ہمارے پشاور سے کتنے ہی میلوں تک‘مہاجرین آباد ہیں‘سڑک کے کنارے جتنے علاقے میں تمام آباد ہوگئے ہیں‘یہاں جو افغان مہاجر آتے ہیں ان کی رہائش کیلئے‘انکی دیکھ بھال کیلئے‘ ان کی تعلیم کیلئے‘انکے کاروبار کیلئے‘انکی تجارت کیلئے حکومت اور عوام ان سے پورا تعاون کرتے ہیں اور اس طریقے سے صوبہ کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور جس کا لازمی ردعمل یہ ہے کہ گرانی حد سے بڑھ گئی‘غذائی حالت خراب ہے اور گرانی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔جی ٹی روڈ پر ہی میں نے افغان پناہ گزینوں کے اندراج کا دفتر دیکھا۔ قبائلی علاقوں کی طرف سے وہ موٹر گاڑیوں پر بیٹھ کر جوق در جوق آرہے تھے اور اپنے نام لکھوا رہے تھے۔ جرمنی کی بنی ہوئی مسافر بردار گاڑیاں تھیں جن پر جرمن زبان ہی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ غالباً امداد میں ملی ہوں گی لیکن بہت سے افغان جو اپنے ملک میں ٹرک چلانے کا کاروبار کرتے ہوں گے‘اپنے ٹرک بھی ساتھ لے آئے تھے جو پھر میں نے پشاور سے لاہور تک ہر جگہ دیکھے۔
اشتہار
مقبول خبریں
تبدیلی کے اثرات
آج کی بات
آج کی بات
ماضی سے ناطہ برقرار رکھنا
آج کی بات
آج کی بات
پہاڑی نالے کے گرد آبادی
آج کی بات
آج کی بات
ٹرین کے اندرطعام کا انتظام
آج کی بات
آج کی بات
تبدیلی کے اثرات
آج کی بات
آج کی بات