تاریخ کا ایک ورق

 فتح پور سیکری دیکھنے کی جاہے نوبت خانہ‘ہاتھی خانہ‘دارالضرب‘خزانہ‘ دیوان عام‘دیوان خاص‘خواب گاہ‘دفتر خانہ‘ اصطبل‘لڑکیوں کا مکتب‘ محل کی عورتوں کے لئے چھوٹی سی مسجد‘ہندو جیوتشی کے بیٹھنے کا ٹھکانا‘وہ پچیسی جس کے خانوں میں کنزیں چلا کرتی تھیں بادشاہ اور ان کے ساتھی بلندی پر بیٹھ کر پانسے پھینکتے تھے اور خانوں میں کھڑی کنزیں گھنی سیاہ پلکیں اٹھائے آگے بڑھنے کے اشارے کی منتظر رہا کرتی تھیں اور جوپٹ جاتیں تو تھکی ہاری وہیں ایک چبوترے پر بیٹھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا کرتیں اور بادشاہ ہنسا کرتے اب وہاں سناٹا سسکیاں بھرا کرتا ہے قریب ہی چارچمن ہے جہاں گلاب کے فوارے چلا کرتے تھے اور دلکش حوض کے درمیان آرائشی چوکی پر بیٹھ کر میاں تان سین گایا کرتے تھے میرے رہنما‘نواب بھائی بتاتے جارہے تھے‘یہاں بادشاہ آرام کرتے تھے یہاں بیٹھتے تھے تان سین یہاں گانا گاتا تھا بیٹھ کر آرام کرنے کی جگہ نیچے ہے جہاں گلاب کا فوارہ چلا کرتا تھا وہاں بڑا ساپھوں بنا ہوا ہے جس میں گلاب بھرا رہتا تھا اور فوارہ چلتا تھا وہیں اکبر کی راجپوت مہارانی کا مکان ہے وہیں وہ دنیا کا سب سے خوبصورت کمرہ ہے جس میں کہتے ہیں کہ اکبر کی ترک سلطانہ رہا کرتی تھی اس کی دیواروں پر جنگل اور باغوں کے ایسے خوبصورت منظر تراشے گئے ہیں کہ آنکھ طے نہیں کرپاتی کہ کیا نہ دیکھے‘کیا دیکھے اور کتنی دیر دیکھے وہیں پنج محل ہے اوپر تلے پانچ منزلیں نیچے بڑی اوپر چھوٹی اور سب سے اوپر نہایت دلکش چھتری جس میں جاکر شہزادیاں عید کا چاند دیکھا کرتی ہوں گی وہیں وہ عمارت ہے جس کا نام آنکھ مچولی ہے شہزادیاں وہاں آنکھ مچولی کھیلا کرتی تھیں وہیں وہ طاق بنے ہیں جن میں وہ اپنے زیور رکھ دیا کرتی تھیں تاکہ بھاگ دوڑ اور چھینا جھپٹی کے دوران کہیں نگ نہ جھڑجائیں‘کہیں موتی نہ بکھر جائیں کیسی رونق کی جگہ ہوگی کہ آج پورے چار سو سال بعد بعد یوں محسوس ہوتا تھا کہ لڑکیوں کے کھلکھلا کر دوڑنے اور ہنسنے کی آوازیں جیسے ابھی ذرا دیر پہلے تک گونج رہی تھیں اس بھنڈارسے محل کے سارے گوشے تنہا اور ویران سے تھے مگر بے رونقی کہیں نہیں تھی‘خوف کبھی نہیں آتا تھا۔
(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)