خدمات کامعیار۔۔۔

میں ایک ڈپٹی سیکرٹری کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ وہاں ایک آدمی آگیا‘وہ ڈپٹی سیکرٹری صاحب اسے دیکھ کر گھبراگئے‘ حیرت اور گھبراہٹ سے اس سے کہنے لگے ہاں جی آپ کیسے یہاں آئے؟اس نے کہا کہ جی میں بڑے دروازے سے آیا ہوں‘ انہوں نے کہا کہ بڑے دروازے سے تو آئے ہو لیکن آپ کو آنے کس نے دیا ہے؟ اس نے کہا کہ جی وہاں پر جو دربان ہے اس نے مجھ سے کہا کہ آپ آج نہیں کل چلے جانا۔ یہ سن کر گھر چلا گیا۔ میں آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں‘وہ پوچھنے لگے کہ آپ اوپر کیسے آئے؟ وہ شخص کہنے لگا کہ جی میں سیڑھیاں چڑھ کر آیا ہوں‘میں نے لفٹ والے سے کہا تھا کہ مجھے اوپر لے جا لیکن اس نے کہا کہ یہ افسروں کی لفٹ ہے‘میں نے کہا کہ یہ دوسری لفٹ ہے اس سے بھیج دو تب اس نے کہا کہ یہ ڈپٹی سیکرٹری کی لفٹ ہے‘ میں نے کہا کہ یہ تیسری‘ اس نے کہا کہ یہ سیکرٹری صاحب کیلئے ہے اور اس لفٹ والے نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ نے اوپر جانا ہی ہے تو آپ سیڑھیاں چڑھ کر چلے جائیں اور میں سیڑھیاں چڑھتا چڑھتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا‘ ڈپٹی سیکرٹری صاحب نے کہا کہ آپ کو کیا کام ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے فلاں کام ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کام کیلئے آپ کو خط لکھنا چاہئے تھا‘اس شخص نے کہا کہ جی میں نے لکھا تھا‘تب انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں ملا‘ اس بیچارے شخص نے کہا کہ نہیں جی وہ آپ کو پہنچ جانا چاہئے تھا کیونکہ میں نے اسے رجسٹری میں ارسال کیا تھا‘اس پر ڈپٹی سیکرٹری صاحب نے کہا کہ اگر تم نے وہ بذریعہ رجسٹری بھیجا تھا تو ہمیں پہلے ڈاکخانے سے اسکی تصدیق کرنی چاہئے تھی کہ کیا وہ ٹھیک طرح سے ڈیلیور ہو گیا ہے کہ نہیں‘ اس نے کہا کہ میں جناب عالی ڈاکخانہ سے تحقیق کر چکنے کے بعد ہی حاضر ہوا ہوں‘ وہ ٹھیک ڈیلیور ہو گیاہے اور چودہ تاریخ کو آپ کے دفتر میں پہنچ گیا ہے‘ صاحب نے کہا کہ آپ کو فون کرنا چاہئے تھا‘آپ یہاں کیوں آ گئے؟ ڈپٹی سیکرٹری صاحب کی یہ باتیں سن کر وہ شخص شرمندہ اورپریشان ہو کر واپس سیڑھیاں اتر گیا اور جانے سے پہلے کہنے لگا اچھا جی میں پھر کسی کو لاؤں گا یا کوئی زور ڈلواؤں گا کیونکہ اس گفا(غار) میں جو شخص بیٹھا ہے وہ میری بات نہیں سنتا‘یہ تو ہمارے ملک کے بندے کی بات تھی‘باہر کے ملکوں کے لوگ جو ہمارے ملک میں تجارت کرنا چاہتے ہیں فیکٹریاں یا کارخانے لگانا چاہتے ہیں اور انہیں ون ونڈو سسٹم کا یقین دلایا گیا ہے ون ونڈو سسٹم کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک ہی کھڑ کی پر آئیں اپنا مدعا بیان کریں‘ اپنی فزیبلٹی رپورٹ وہاں پیش کریں تو وہ ایک ہی ونڈو والا بابو‘ صاحب یا ڈپٹی سیکرٹری کہے گا کہ جی آپ جہاں چاہتے ہیں فیکٹریاں لگا سکتے ہیں‘اب باہر والے پریشان ہو کر کہتے ہیں کہ یہاں ون ونڈو توکیا کوئی ونڈو ہے ہی نہیں‘ہم آدمی تلاش کرتے پھرتے ہیں‘ ہمیں یہاں کوئی آدمی ہی نہیں ملتا‘اب اس سارے عمل میں آپ کا لوگوں سے تعلق کس طرح ٹوٹتا ہے یہ ایک غور طلب بات ہے گھروں میں بھی بعض اوقات ایسا ہوتا ہے۔اوکاڑہ میں ایک میلہ لگتا ہے(اب پتہ نہیں لگتا ہے یا نہیں کیونکہ میری جوانی کے زمانے میں لگا کرتاتھا)اور مجھے ان میلوں ٹھیلوں سے بہت دلچسپی ہے میں نے دیکھا کہ وہاں پر ایک پنگھوڑا لگا ہے اور اس کا مالک آٹھ آٹھ آنے لے کر گول گھومنے والے پنگھوڑے سے جھولے دے رہا ہے۔وہ پنگھوڑا آج کل کے پنگھوڑوں کی طرح بجلی یا مشین سے چلنے والا نہیں تھا بلکہ پنگھوڑے والا اسے ہاتھ کے زور سے گھماتا تھا میں وہاں بغیر کسی مقصد کے کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا تو ایک گاؤں کا آدمی وہاں آیا اس کی پگڑی کھل کر گلے میں پڑی ہوئی تھی اور اس نے کھدر کی تہبند باندھی ہوئی تھی وہ بھی اس پنگھوڑے کے لکڑی کے گھوڑے پر سوار”جھوٹے“ (جھولے) لے رہا تھا جب ایک ”پور“ (چکر) ختم ہوا اور سارے اتر گئے تو تب بھی وہ شخص وہیں بیٹھا رہا اور وہ اکڑوں حالت میں بڑی تکلیف اور پریشانی میں ویسے ہی گھومتا رہا جب وہ تیسرے چکر کے اختتام پر بھی نہ اترا تومیرا اس میں تجسس بہت بڑھ گیا اور میں نے آگے بڑھ کر اسے کہا کہ آپ نے ”جھوٹے“لے لئے ہیں اور آپ اترتے کیوں نہیں ہیں اگر آپ کو یہ چکر پسند ہیں تو پھر آپ کے چہرے پر خوشی ٗمزے اور بشاشت کے اشارے ہونے چاہئیں جو بالکل نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ جناب بات یہ ہے کہ یہ جو پنگھوڑے والا ہے اس سے میں نے تیس روپے لینے ہیں اور میں ہفتہ بھر سے اس کے پیچھے گھوم رہا ہوں اور یہ میرا قرضہ نہیں دے رہا ہے اور اب میں نے اس کا یہی حل سوچا ہے کہ میں اپنے قرضے کے بدلے اس کے پنگھوڑے پر”جھوٹے“ لوں۔اب یہ میرا29واں پھیرا جا رہا ہے اور ہر مرتبہ میں آٹھ آنے کم کرتا جاتا ہوں اور اس طرح سے میں اپنا قرضہ واپس لے رہا ہوں۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)