تھانیدار سے ملاقات۔۔۔۔

جب آپ عید کی نماز پڑھ چکے ہوتے ہیں تو پھر اپنے دوستوں‘ساتھیوں‘عزیزوں دوسرے نمازیوں سے گلے ملتے ہیں اور ایک خاص انداز میں معانقہ کرتے ہیں ایک دفعہ جب ہم باہر نکلے‘ بہت سارے پرانے دوست ملے‘تو مجھے اچانک خیال آیا کہ یہ ہم اپنے دوستوں کو تو ملتے ہیں جن کو جانتے ہیں اور جو اس مسجد میں اکٹھے ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر ہمارے دوست نہیں ہوتے لیکن ان کا ہماری ذات کے اوپر کسی نہ کسی حوالے سے احسان ضرور ہوتا ہے تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں ماڈل ٹاؤن میں رہتا ہوں اس علاقے کا جو تھانیدار ہے جو رات کو سیٹی بجانے والے سپاہی بھیجتا ہے جو بائیسکل پر گشت کرتے ہیں وہ کون ہیں؟ مجھے ان کے ساتھ بھی جاکر عید ملنی چاہیے‘ اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے محافظ ہیں جب میں گیا تو اس تھانے میں ہوکاعالم تھا سب لوگ اپنی اپنی نماز ادا کرنے کے لئے جاچکے تھے جوانوں کو چھٹی دی گئی تھی تھانیدار صاحب ایس ایچ او صاحب اپنی پرانی وضع کی میلی‘سلوٹوں سے بھری وردی پہن کر اور انگلی میں پھنسا کے سگریٹ اور چٹکی بجا کر گلی جھاڑنے کیلئے کرسی پر بیٹھے تھے انہوں نے اپنے پاؤں میز کے اوپر رکھے ہوئے تھے اور وہاں تھا کوئی نہیں میں جب اندر داخل ہوا تو میں نے کہا جناب اجازت ہے کہنے لگے فرمائیے جناب اعلیٰ میں نے کہا نہیں میں تو آپ سے ملنے کے لئے آیا ہوں کہنے لگا جی حکم انہوں نے پاؤں نیچے اتار دیئے میز سے اور بیٹھ گئے تھانے والے جناب عالی یا جناب اعلیٰ کہہ کر بلاتے ہیں ان کا ایک انداز ہے تو کہنے لگے جناب عالی کیا کام ہے میں نے کہا کوئی کام نہیں میں تو ایسے ہی آیا ہوں کہنے لگا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی آدمی تھانے میں آئے اور اس کو کوئی کام نہ ہو میں نے کہا نہیں آج میں اس غرض سے نہیں آیا آپ ایس ایچ او ہیں کہنے لگا جی میں ایس ایچ اوہوں میں نے کہا میں آپ سے عید ملنے کے لئے آیا ہوں تو وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے بڑی مہربانی وعلیکم عید مبارک میں نے کہا دیکھئے تھانیدار صاحب وعلیکم عید مبارک ایسے تو نہیں ہوجاتی آپ کو اٹھ کر کھڑے ہونا پڑے گا اور پھر میرے ساتھ عید ملنی پڑے گی یہ تو کوئی طریقہ نہ ہوا عید ملنے کو میں اتنی دور سے آیا ہوں ان کو میری بات سمجھ میں نہیں آئی تو میں نے گستاخی کرتے ہوئے ان کے کندھوں سے پکڑ کر جہان ان کے سٹارز لگے ہوئے تھے ان کو اوپر اٹھایا تو کھڑے ہوگئے کھڑے ہو کے میں نے ان کو ایک ’جپھی‘ ڈالی تو ہ ذرا سا گھبرائے جب میں نے دوسری طرف سرکرکے معانقہ کیا جو انداز ہوتا ہے تو انہوں نے اتنی زور سے رونا شروع کیا آں اوآں کرکے میں ڈرگیا یا اللہ یہ کیا ہوگیا بہت اونچی آواز میں اتنا بڑا تھانیدار‘بھاری بھر کم جسم کا آدمی اونچی آواز میں رونے لگا تو میں بالکل لرزہ براندام ہوگیا تو وہ جو تیسرا معانقہ ہوتا ہے وہ میں نہیں کرسکا کیونکہ میں گھبرایا ہوا تھا روتے ہوئے انہوں نے کہا‘جناب عالی اگر آپ سچے آدمی ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انیس برس کی سروس میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی شخص مجھے عید ملنے آیا ہے کسی نے آکر مجھے جپھی ڈالی ہے۔میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں اپنے ادیب دوستوں کو صحافیوں کو اور دانشوروں کو بلانے اور تھانے کے ان لوگوں کو جو پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتے ہیں ملاؤں گا اور ان کی آپس میں گفتگو کرواؤں گا تاکہ ان میں ارتباط باہمی پیدا ہو اور وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں تو اس کا انتظام کیا گیا۔ ہمارے ہاں لاہور میں ایک جگہ ہے الفلاح‘ ہمارا ایک دفتر تھا نیشنل ری کنسٹرکشن کا۔ تو وہاں ایک ہال تھا اس میں بندوبست کیا۔ تو پولیس والے بہت خوش ہوئے اور وہ اپنی نئی نئی وردیاں اچھی کلف لگی ہوئی استری کی ہوئی‘ اچھے بوٹ چمکا کے آگئے۔ ان میں ڈی آئی جی‘ ایس ایس پی‘ انسپکٹر ایس ایچ او اور کافی ہال جو تھا‘ بھرا ہوا تھا۔ پھر الگ کرسیاں بھی تھیں اور ہم لوگ جو تھے‘ ہمارے ساتھی دانشور‘ ادیب‘ صحافی وہ بھی موجود تھے۔ یہ ہمارے درمیان بڑا خلا ہے اس کو پرُ کرنا چاہئے تو میں نے ان کو زحمت دی ہے کہ ہمارے درمیان بھی اس قسم  کی محبت اور قربت کا رشتہ قائم ہو تو کیسی محبت کی بات ہے۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)