قلعہ رہتاس کہنے کو توبرصغیر کے تاج میں نگینے کی طرح جڑا ہے‘ یہ قلعہ شیرشاہ کی جرنیلی سڑک سے صرف چار پانچ کلو میٹر دور ایک بلند ٹیلے پر کھڑا ہے‘ مگر چپ سادھے عظمت رفتہ کے اس شاہکار کو اب کوئی دیکھنے بھی نہیں آتا‘ ہم سنتے آئے تھے کہ بستیوں کے مقدر دریاؤں سے جڑے ہوتے ہیں‘دریا اپنا کنارہ چھوڑ کر دور چلے جائیں تو آبادیاں ویرانوں میں بدل جایا کرتی ہیں‘ مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ عظمتوں کی نشانیوں کے مقدر سڑکوں سے بھی وابستہ ہوتے ہیں‘ سڑکیں اپنی راہ بدل جائیں تو یہ نشانیاں راہ میں ماری جاتی ہیں‘ شیر شاہ کی شاہراہ اعظم پاکستان میں جہلم کے قریب اسی قلعہ رہتاس کے پہلو سے لگی رہا کرتی تھی‘ رات دن سینکڑوں ہزاروں قافلے اورکاروان ادھر سے گزرا کرتے تھے‘ کسی شہ رگ میں دوڑنے والے خون کی طرح‘ مگر بعد میں انگریزوں نے اس سڑک کو ندی نالوں کے اس علاقے سے ہٹا کر پانچ میل دور دینا کی طرف موڑ دیا‘ اب جدھر سے سڑک گزرتی ہے ادھر سے خلق خدا گزرتی ہے اور رہتاس تنہا کھڑا ہے‘ میں صبح تڑکے راولپنڈی سے جیپ میں بیٹھ کر رہتاس پہنچا‘ابھی اتنا سویرا تھا کہ دینا سے جہاں ہماری گاڑی رہتاس جانے والی تنگ اور خستہ حال سڑک پر مڑی وہاں گاڑیوں سے محصول لینے والا شخص بھی ڈیوٹی پر نہیں آیا تھا اور جس وقت ہم قلعے کے دروازہ خواص خوانی پر پہنچے تو صبح کے سورج کی پہلی کرنوں میں یہ ساڑھے چار سو سال پرانی عمارت یوں لگی جیسے سونے کے پانی میں نہائی ہو‘قلعے کی تعمیر غالباً اتوار 25 مئی 1542ء کو صبح سات بجے شروع ہوئی اور آج ہم اس کی عمارت جو دیکھ رہے ہیں یہ آٹھ نو سال میں بن کر تیار ہوئی ا ور اس پر جو خرچ آیا آج کے روپوں میں خدا جانے کتنا رہا ہوگا‘اس وقت کے بہلولی سکے میں اس کی تعمیر پر چوبیس کروڑ پندرہ لاکھ پانچ ہزار ڈھائی دام اٹھے‘ ہماری جیپ اس صبح خستہ حال سڑک پر چل کر پھرایک کچی سڑک پر اتر کر اس کے بعد نالہ کہان پار کرکے اور اونچے ٹیلے کی پتھریلی راہ طے کرکے وہاں پہنچی‘قلعے کے اندر جو پرانی بستی ہے اس کے باشندوں نے صبح صبح جو ایک اجنبی کو آتے دیکھا تو وہ گھروں سے نکل آئے‘ان میں قلعے کے ایک بزرگ سوار الدین شیدا بھی تھے‘ خود اس قلعے کی طرح ضعیف ہوگئے ہیں اور اپنی زیادہ تر عمر قلعے کے اندر گزاری ہے‘ وہ مجھے قلعے کی سیر کرانے چلے۔حسن ابدال سے آگے بڑھیں تو واہ چھاؤنی ہے۔ وہاں مغلوں کے دور کی بہت بڑی باولی ابھی تک اچھی حالت میں موجود ہے۔ کسی زمانے میں لوگ، ان کے مویشی اور ہاتھی گھوڑے باولی کی سینکڑوں سیڑھیاں اتر کر سیراب ہوا کرتے تھے۔اب لوگ یہ مشقت نہیں کرتے بلکہ پمپ کے ذریعہ پانی کھینچ لیتے ہیں۔ واہ سے آگے سرائے کالاہے۔ جی ٹی روڈ پر یہ چھوٹا سا قصبہ ہے۔ ظاہر ہے کہ کبھی اس جگہ مسافروں کیلئے سرائے رہی ہوگی۔ جہانگیر نے بھی یہاں پڑاؤ ڈالا تھا۔ اس وقت اس جگہ کا نام کالا پانی تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ شیر شاہ اور مغلوں کے زمانے میں جو ہزاروں سرائیں بنائی گئی تھیں بعد میں ان کے گرد بستیاں آباد ہوتی گئیں۔ خود سرائیں نہیں رہیں البتہ آبادیوں کے نام کیساتھ لفظ ’سرائے‘ جڑا رہ گیا۔ مردم شماری کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان پاکستان میں کئی سو شہروں، قصبوں اور دیہات کے ناموں کے ساتھ لفظ ’سرائے‘ لگا ہوا ہے۔ اگرنقشے پر ان تمام مقامات کو لکیروں سے ملایاجائے تو کیا قدیم سڑکوں کا نقشہ خود بخود نہیں ابھرے گا؟جہاں یہ سرائے کالاہے وہاں سے صرف چند کلومیٹر دور ٹیکسلا کے کھنڈر ہیں۔ سرائے کالا سے چار میل آگے مرگلا کی پہاڑی دیوار بن کر کھڑی ہے۔ پہاڑی میں ایک کٹاؤ ہے لیکن اس دن میں سوچنے لگا کہ اس پچیس تیس ہاتھ چوڑے پہاڑی شگاف کے راستے ہزاروں برسوں کے دوران ان گنت قبیلے، قافلے اور لاؤ لشکر گزرے ہوں گے۔ چین، افغانستان، وسطی ایشیا، ایران اور ایشائے کوچک سے چاہے ایک تنہا مسافر آیا ہو چاہے ایک لشکر جرّار، وہ سب مرگلا کے اس کٹاؤ پر چڑھے ہوں گے اور اوپر پہنچ کر انہوں نے دوسری طرف کا نظارہ کیا ہوگا تو تاحدِنگاہ ہندوستان ہی ہندوستان دکھائی دیا ہوگا۔ مرگلا کا یہ تاریخی کٹاؤ ابھی موجود ہے۔ جسے دیکھنا ہو فوراً جاکر دیکھ لے کیونکہ پہاڑی پتھر کاٹ کاٹ کر فروخت کرنے والے بیوپاریوں کی جدید مشینیں اس پہاڑی پر اس طرح ٹوٹی پڑرہی ہیں جیسے قند کی ڈلی پر بھوکی چیونٹیاں۔بعد میں جب انگریزوں نے گرینڈ ٹرنک روڈ کی تعمیر شروع کی تو انجینئروں نے اس پہاڑی میں گہرا درہ کاٹ دیا۔ اس سے آنا جانا آسان ہوگیا۔ البتہ بلندی پر اس سڑک کے آثار ابھی موجود ہیں جو غالباً اکبر نے بنائی تھی تاکہ بھاری توپیں آسانی سے چڑھائی جاسکیں۔ اس درے کے اوپر پہاڑی کی چوٹی پر نکلسن کی لاٹ میلوں دور سے نظر آنے لگتی ہے۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)