ہنرمندوں کا شہر۔۔۔۔

سکھوں کے زمانے تک گجرات میں بہترین کوفت گری ہوتی تھی اس کے علاوہ گجرات کے بڑھئی ایسا اعلیٰ فرنیچر بناتے تھے کہ انگریزوں کے دور میں گجرات کی کرسیاں انگلستان تک جاتی تھیں وہ جو آرام کرسیاں کہلاتی ہیں وہ گجرات ہی میں بنتی تھیں اور پھرمٹی کے برتن! نفاست ان پر ختم تھی‘پانی پینے کے ایسے کوزے توخود میں نے دیکھے ہیں جو سرخ کاغذ جیسے ہوتے تھے اور ان میں سے دھوپ چھنتی تھی چاک گھومتے تھے تو گندھی مٹی انگوٹھے اور انگلیوں کے بیچ حسن میں ڈھل جایا کرتی تھی وہ اسی گجرات کے گھڑے تو تھے جو اگر کچے نہ ہوں تو عشق کو چناب کے پار اتاردیا کرتے تھے۔ شہرکے ایک نشیبی علاقے میں کمہاروں کے محلے کے آثار اب تک باقی ہیں مگر وہ چھتیں اب نہیں رہیں پاکستان میں بجلی کے سب سے اچھے پنکھے جن شہروں میں بنتے ہیں ان میں گجرات سرفہرست ہے مکران سے لیکر ملتان تک ہر جگہ گجرات کے پنکھے کا چلن ہے۔ میرے لئے ممکن نہ تھا کہ پنکھوں کی صنعت دیکھے بغیرگجرات سے گزر جاؤں چنانچہ میری ملاقات محمد الیاس صاحب سے ہوئی خوش شکل، ہونہار، تعلیم یافتہ اور ہوشیار، پنکھا سازی کے ایک بڑے ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں محمد الیاس صاحب نے مجھے بتایا کہ صرف گجرات میں پنکھا بنانے والے چار سو ادارے ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا کہ اس شہر میں پنکھوں کی صنعت سے کتنے لوگوں کو روزی ملتی ہے؟ انہوں نے کہا ”میں سمجھتا ہوں کہ صنعت پنکھا سازی میں اور اس کی الائیڈ انڈسٹری میں کم سے کم دس ہزار لوگ کام کررہے ہیں“ میں نے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے اس شہر میں ہر سال کتنے پنکھے بنتے ہونگے؟ جواب ملا ”میرا اپنا اندازہ ہے کہ پانچ سے دس لاکھ پنکھا اس شہر میں سال بھر میں بنتا ہے“ اب میں نے پوچھا کہ ان میں سے کتنے پنکھوں کی کھپت ملک کے اندر ہوتی ہے اور تقریباً کتنا مال باہر جاتا ہوگا؟ انہوں نے کہا ”اس میں تقریباً سارا مال پاکستان کے اندر ہی صرف ہوجاتا ہے، بہت تھوڑی سی ایکسپورٹ ہوتی ہے“ میں نے کہا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ چند برس پہلے تک کافی پنکھے باہر کے ملکوں میں جاتے تھے اور اب وہ صورتحال نہیں رہی؟ محمد الیاس صاحب نے بتایا ”جی  1960ء کے عشرے میں آخری برسوں تک کافی پنکھے باہر کے ملکوں میں جاتے تھے ہماری اس فیکٹری کی پچاس فیصد سے زیادہ مصنوعات ایکسپورٹ ہوتی تھیں لیکن اس کے بعد کچھ ایسے معاشی حالات پیدا ہوئے کہ وہ مارکیٹیں ہمارے ہاتھ سے نکل گئیں ہماری قیمتیں زیادہ ہوگئیں اور اس میں مشرق بعید کے ممالک نے ان مارکیٹوں پر قبضہ کرلیا۔“ یہ تھے محمد الیاس صاحب پنکھے بنانے والے یہی ادارے اب بجلی کا دوسرا سازو سامان بھی بنانے لگے ہیں چنانچہ جرنیلی سڑک کے کنارے اب نہ صرف گرائنڈر، مکسر اور کولر بلکہ ویکیوم کلینر، ریفریجریٹر اور ائر کنڈیشنر بھی بننے لگے ہیں ذرا تحفظ اور سرپرستی مل جائے تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے اور یہ بات ساقی سے نہیں بااختیار لوگوں سے کہی جارہی ہے۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)