انبالہ کا سفر۔۔۔۔

میراپاکستان کا سفر تمام ہوا‘ چند لمحوں کی اڑان مجھے ہندوستان لے آئی اب معیشت الگ ہے‘ معاشرت جدا ہے‘ لہجے الگ ہیں پہناوے جدا ہیں روپ الگ ہیں‘ رنگ جدا ہیں۔میرے سفر میں ملک بدلاتو سارے منظر بدل گئے اور میں چونکہ بسوں میں سفر کرتا رہا اس لئے سب سے بڑی تبدیلی مجھے بسوں میں نظر آئی‘جاپانی ساخت کی ملائم نشستوں والی بسیں پاکستان میں رہ گئیں اب ٹاٹا کی لوہے لاٹ کی بنی بسیں میری رفیق سفر ٹھہریں اور سفر بھی ایسا کہ سارا بدن چورُ چورُ تختوں سے زیادہ سخت نشستیں اور انسان کو دوہرا کر دینے والی ان کی پشت اگر آپ اتفاقاً یا مجبوراً پہیوں کے اوپر والی نشست پر بیٹھ گئے تو بس کے فرش پر اُبھرے ہوئے بمپر کی وجہ سے آپ کی ٹانگیں مڑی ہوئی اور کہیں خالی نشست کو غنیمت جان کر اور لپک کر آپ سب سے اگلی سیٹ پر جا بیٹھے ہیں تو بھٹی کی طرح تپتے ہوئے انجن کے لوکوں سے کل وجود جھلس کر راکھ۔ کچھ دیر بعد آپ دیکھیں گے کہ آپ کے پتلون پر گومڑوں کی طرح اُبھرے ہوئے گھٹنے اگلی نشست کی پشت سے رگڑ کھاتے کھاتے سیاہ ہو چکے ہیں اور سامنے لگی ہوئی لوہے کی سلاخ پکڑے پکڑے آپ کی دونوں ہتھیلیاں جیسے خود بھی زنگ کھا چکی ہیں۔ جس نے کبھی اس سے بڑھ کر راحت نہ دیکھی ہو اور جسے اس سے زیادہ آسائش ملی نہ ہو اس کیلئے اسی میں بڑا آرام اور اسی میں بڑا چین ہے اس روز بڑا لطف آیا میری بس دہلی سے چلی‘ یوپی سے گزری اور ہریانہ میں داخل ہوئی بڑے بڑے کارخانوں کا دھواں اگلتی چمنیوں کے شہر منیانگر کے پختہ کشادہ بس اسٹینڈ میں بس کارکنا غضب ہو گیا کیونکہ اگلے ہی لمحے ایک ہجوم اندر گھس آیا کوئی سنگترے بیچ رہا تھا کوئی مونگ پھلی گدا گروں کا اصرار تھا کہ ان سے بڑا نادار اب زمانے میں ملنا مشکل ہے لیکن سب سے دلچسپ تقریریں کتابیں بیچنے والوں کی تھیں ایک صاحب گھر بیٹھے انگریزی سیکھنے کی کتاب بیچ رہے تھے صرف ایک روپیہ خرچ کرکے یہ جناتی زبان سیکھی جا سکتی تھی یہ سودا مہنگا نہیں۔ دوسرے صاحب جڑی بوٹیوں اور گھریو ٹوٹکوں کے ذریعے ہر مرض کے علاج کی کتاب لائے تھے ان کو اس بات پر اصرار تھا کہ انگریزی دوائیں بھی جڑی بوٹیوں سے بنتی ہیں تقریروں کے اس شور میں سر پھٹنے لگا اور اس کتاب میں سر پھٹنے کا علاج نہیں تھا۔انبالہ بہت پرانا نہیں ہے اسکی تاریخ تقریباً 175 سال کی ہے یہ پہلے موضع بھگیال کے زمینداروں کے کھیت تھے پھر انگریزوں نے یہاں پر چھاؤنی بنائی لہٰذا کنٹونمنٹ پرانا نہیں البتہ انبالہ شہر آٹھ سو سال پرانا ہے وہ پرانے کلچر کا گہوارہ تھا مشاعرے ہوتے تھے نشستیں ہوتی تھیں مطلب یہ کہ یہ شہر ادب کا مرکز رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ انبالے سے دہلی جائیں گے تو اس جی ٹی روڈ کے ارد گرد آپ کو ادب کے اور بھی مراکز ملیں گے مثلاً پانی پت کے بی پرواز صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپکا یہ شہر پہلے کیسا تھا اس وقت کیسی محفلیں سجتی تھیں اور کیسی بزم آرائیاں ہوتی تھیں؟انہوں نے کہا’انبالے کو میں نے برطانوی دور میں بھی دیکھا ہے جب میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت میرے والد یہیں تعینات تھے وہ ٹیلیفون آپریٹر تھے اسوقت یہ شہر بہت خوبصورت تھا بے حد صاف ستھرا تھا آبادی کم تھی بہت تازی ہوا تھی اب توسیع ہوگئی ہے گھٹن ہوگئی ہے پہلے یہ بات نہیں تھی تو میں گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے والدصاحب کے پاس یہاں آیا ہوا تھا تو ایک مشاعرہ ہوا یہاں پر ایک بہت بڑے استاد ہوتے ہیں لالہ رام کشن صاحب تمنا انبالوی علامہ اجل انبالوی کے شاگرد تو اتفاقاً ان ہی دنوں ایک مشاعرہ ہوا‘میں اس مشاعرے میں گیا تو وہاں دیکھا کہ مشاعرہ ہورہا ہے اور سامعین کی اتنی بھیڑ ہے کہ اندر بھی لوگ بیٹھے ہوئے‘چھتوں پر بھی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور باہر بھی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک بہت اچھی روایت دیکھی ان دنوں‘آج کل لوگ شاعر کو داد بھی دیتے ہیں‘ بے داد بھی دیتے ہیں اور ہوٹنگ بھی کرتے ہیں اسوقت شاعر کا جو بھی اچھا شعر ہوتا تھا داد کیساتھ ساتھ اس پر پھول برساتے تھے۔ اسکے بعد پرواز صاحب بتانے لگے کہ انبالہ شہر نے کیسے کیسے باذوق لوگ پیدا کئے دریاؤں‘پہاڑوں اور میدانوں کے اس سکل بن میں شعر وسخن کی کیسی سرسوں پھولی‘ وہ کون ہستیاں تھیں جنہوں نے بڑا کام کیا اور بڑا نام پایا۔
(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)