گیارہ روز تک غزہ پر وحشیانہ بمباری کے باعث پڑنے والے عالمی دباؤ کے بعد اسرائیلی کابینہ نے حماس کے ساتھ جنگ بندی کی منظوری دے دی -کئی اسلامی اور مغربی ممالک کے اقدامات کے نتیجے میں ہونیوالی جنگ بندی کا آغاز جمعہ کی رات دو بجے سے ہوا-مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان مصالحتی کوششوں میں امریکہ‘ فرانس‘ سعودی عرب‘ مصر اور قطر نے قلیدی کردار ادا کیا ٗاسرائیل کے بارے میں یہ بات ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ جس ملک کی بات کو نظر انداز نہیں کر سکتا اسکا نام امریکہ ہے ٗواشنگٹن ہر سال صیہونی ریاست کو 3.8 بلین ڈالر کی عسکری امداد دیتا ہے جو F-16 طیارے اسرائیل نے غزہ پر سو سے زیادہ فضائی حملوں میں استعمال کئے وہ امریکہ ہی کے دیئے ہوئے ہیں امریکی اخبارات میں صدر بائیڈن اور بنجا مین نتن یاہو کی دو مرتبہ فون پر ہونے والی گفتگو کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ان خبروں کا لب لباب یہ ہے کہ صدر بائیدن نے بمشکل اسرائیلی وزیر اعظم کو جنگ بندی پر راضی کیا ہے امریکی صدر نے اسلئے نتن یاہو کو مجبور کیا کہ ان پر ڈیموکریٹک پارٹی کے پروگریسیو حلقے کے علاوہ فرانس اور جرمنی کے سربراہوں کا بھی دباؤ تھا فرانس کے صدر ایمنول میکرون نے گزشتہ دو سالوں سے فرانسیسی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے وہ آئے روز نت نئے قوانین بنا کر مسلمانوں کے مصائب میں اضافہ کرتے رہتے ہیں جرمنی نے عراق‘ شام اور افغانستان جنگوں کے بعد ایک ملین مسلمان مہاجرین کو پناہ دی تھی ٗجرمن وائس چانسلرانجیلا مرکل کو بھی اب مہاجرین کی مزاحمت اور مظاہروں کا خدشہ لگا رہتا ہے ٗاسرائیل کی ضد‘ ہٹ دھرمی‘ وحشت اور تکبر و استکبار کے باوجود بالآخر غزہ کے آسمان سے آتش و آہن برسنا بند ہو گئے فیض نے انہی درد ناک لمحوں کے بارے میں کہا ہے
تھم گیا شور جنوں ختم ہوئی بارش سنگ
خاک راہ آج لئے ہے لب دلدار کا رنگ
کوئے جاناں میں کھلا اپنے لہو کا پرچم
دیکھئے دیتے ہیں کس کس کو صدا میرے بعد
اسرائیل اور حماس کی گزشتہ تیرہ برسوں میں اس تیسری خوفناک جنگ کو ایک بڑی تباہی کے بعد بند کرانے میں مغربی ممالک کے مفادات اور مسائل تو سامنے کی بات ہیں مگر اس سیز فائر میں جس ملک نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے اسکی چالاکی اور مکاری نہ جانے کب طشت از بام ہو گی اس ملک کا نام مصر ہے اسرائیل اور امریکہ کے علاوہ حماس بھی اسکی مصالحتی کو ششوں پر انحصار کرتی ہے مصر ہی وہ ملک ہے جس نے اسرائیل کیساتھ ملکر صحرائے سینا میں غزہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے حماس نے جنگ بندی کے اعلان میں مصر کی کوششوں کا اعتراف کیا ہے مصر اور غزہ کے درمیان جو Crossing Point یا آمدو رفت کا علاقہ ہے اسے رفاہ بارڈر کہا جاتا ہے اسرائیل اور مصر کے درمیان 1979 ء میں جو امن معاہدہ ہوا تھااسکے بعد 1982 ء میں اسرائیل نے صحرائے سینا سے انخلاء کر کے اسکے مقبوضہ علاقے مصر کی تحویل میں دے دیئے تھے اس معاہدے کی رو سے مصر نے سو میٹر طویل رفاہ بارڈرکی کڑی نگرانی کرنے کی ذمہ داری
قبول کی تھی اور امریکہ اور اسرائیل کو یقین دلایا تھا کہ اس بارڈر کراسنگ سے صرف لوگوں کی آمدو رفت کی اجازت دی جائیگی اور غزہ میں اسلحے کی سپلائی کو سختی سے کنٹرول کیا جائیگا اس پہرے داری کے عوض امریکہ ہر سال مصر کو 1.2 بلین ڈالر کی عسکری اور اقتصادی امداد دے گا حسنی مبارک کے بتیس سالہ دور آمریت اور آجکل جنرل فتح السیسی کے مارشل لاء میں مصر نے یہ نوکری بڑی تابعداری اور فرمانبرداری سے کی مگر 2012 ء میں صدر محمد مورسی نے غزہ کے محاصرے میں خاصی نرمی برتی جسکے نتیجے میں لبنان سے ایران کے بھیجے ہوئے میزائل اور راکٹ ایک بڑی تعداد میں غزہ پہنچنے لگے حماس نے اسرائیل کیساتھ 2014ء کی جنگ میں ان میزائلوں کا بڑے پیمانے پر استعمال کر کے دشمنوں کو خوفزدہ کر دیا تھا انہی دنوں جب حماس کے انقلابی لیڈر خالد مشال نے قاہرہ کا فاتحانہ دورہ کیا تو واشنگٹن اور تل ابیب کی قیادتوں کے پسینے چھوٹ گئے تھے انہیں مصر ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آنے لگا اسکے بعد محمد مورسی اور اسکے خاندان کو فتح السیسی نے جس عبرت ناک انجام سے دوچار کیا اسے اسلئے صیغہ راز میں نہیں رکھا گیا کہ پورے مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمون کے حمایتی اس سے سبق حاصل کریں اور اسرائیلی مفادات کو زک پہنچانے کا تصور بھی نہ کریں اس معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ اگر اسرائیل کو رفاہ بارڈر کی نگرانی خود کرنا پڑ جائے تو اسے اس جگہ ہزاروں فوجی تعینات کرنے کے بعد ان پر ہر سال اربوں ڈالر بھی خرچ کرنا پڑیں گے یہ ملازمت مصر گزشتہ انتالیس برسوں سے نہایت سستے داموں کر رہا ہے جس دن مصر نے یہ نوکری کرنے سے انکار دیا اس دن مشرق وسطیٰ میں حقیقی عرب بہار آ جائیگی اسوقت تک بقول علامہ اقبال یہی کہا جا سکتا ہے کہ
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
مصر نہ صرف بڑی مستعدی سے یہ ملازمت کر رہا ہے بلکہ اسکے حکمرانوں کو اپنے مغربی مہربانوں سے اس تعلق پر فخر بھی ہے مصر کے مرد آہن فتح السیسی ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی دوستی کا ذکر بڑے فخر سے کرتے تھے۔
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
بحیرہ روم کے کنارے پر آباد غزہ کی پٹی پچیس میل طویل اور7.5 میل چوڑی ہے اسرائیل اور مصر کے محاصرے کی وجہ سے بیس لاکھ لوگوں کا یہ شہر ایک فوجی کیمپ یا قید خانہ بن گیا ہے اسکی بجلی‘ پانی‘ گیس اور انٹرنیٹ کے نظام بھی ان دو غاصب ملکوں کے قبضے میں ہیں نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر نے لکھا ہے The Gaza enclave was already suffering under the weight of an in definite blockade by Israel and Egypt even before the recent conflictیعنی غزہ کا محصور علاقہ اس جنگ سے پہلے ہی اسرائیل اور مصرکے غیر معینہ محاصرے کے بوجھ تلے کراہ رہا تھااس گیارہ روزہ جنگ نے غزہ کے مکینوں کی سوختہ سامانی میں کتنا اضافہ کیا ہے اور النقبہ کا ذکر فلسطین سے لیکر یورپ اور امریکہ تک کیوں ہو رہا ہے اسکا بیان اگلے کالم میں کیا جائیگا۔