النقبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

النقبہ کا لغوی مطلب ایک بڑی تباہی ہے اسرائیل کے بہیمانہ تسلط تلے رہنے والے پچاس لاکھ فلسطینی النقبہ کو اپنی زندگی کی کہانی سمجھتے ہیں گذشتہ جمعے کی جنگ بندی سے تین روز پہلے لاکھوں فلسطینیوں نے غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خلاف احتجاج کیا یہ جلسے اور جلوس یروشلم‘  مغربی کنارے اور غزہ میں بہ یک وقت منعقد ہوئے۔ یروشلم کے مسلمان اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونیوالی جنگ کے علاوہ شہر کے مشرقی حصے میں ہونیوالی بیدخلیوں پر بھی صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے اس دن اسرائیل میں ہر جگہ مسلمان کام کاج چھوڑ کر سڑکوں پر امڈ آئے تھے ملک کے وسط میں واقع جفا شہر سے لیکر شمال میں امل فہم نام کے قصبے تک  مسلمان اسرائیل کے تشدد کی مذمت کر رہے تھے یروشلم سے چودہ میل دور مغربی کنارے میں ہیبرون‘ جنین‘  نیبلس اور رملہ میں بھی فلسطینی 72 سالہ غلامی کی زندگی کے خلاف سراپا احتجاج تھے منگل کے روز اسرائیل کے فضائی حملوں کے باوجود غزہ میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر ویسٹ بینک اور یروشلم کے فلسطینیوں کیساتھ یکجہتی کا ثبوت دیاان تینوں مقامات پر جو نعرہ ہر جگہ بلند کیا گیا اور جو تحریر ہر جگہ جھنڈوں اور بینروں پر لکھی ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ No to another naqba اسرائیل کے اندر اور باہر دنیا میں ہر جگہ رہنے والے فلسطینی نقبہ سے کیوں خوفزدہ ہیں اور وہ کیوں اس سے نجا ت چاہتے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ نقبہ ہر فلسطینی کی زندگی کا المیہ بن چکا ہے یہ المیہ آجکل پہلی مرتبہ کھل کر مغربی میڈیا پر بیان کیا جا رہا ہے برطانیہ اور امریکہ کے اخبارات فلسطینیوں کے انٹرویو شائع کر کے انکی زندگی کے تلخ حقائق لاکھوں لوگوں تک پہنچا رہے ہیں یروشلم‘ ویسٹ بینک اور غزہ کے فلسطینی کس قسم کی زندگی گذار رہے ہیں اسکا اندازہ کسی کو بھی نہ تھا اسرائیل کی غلامی کا اصل رنگ اور روپ کیسا ہے ہر روز محکوم فلسطینیوں کو کن عذابوں سے گذرنا پڑتا ہے ایک ملٹری رول اور پر تشدد حکومت کے سائے میں صبح سے شام کیسے ہوتی ہے یہ صرف وہ ہی جانتے ہیں جنہیں ہر روز اس اذیت اور عذاب سے گذرنا پڑتا ہے گیارہ مئی کے برطانوی آن لائن نیوز پیپر ”اندیپینڈنٹ“ میں فلسطینی خاتون مونا داجانی نے لکھا ہے” آجکل اسرائیلی مسلمان جن حالات کا شکار ہیں انکا میری زندگی سے گہرا تعلق ہے میرا خاندان ان میں سے ایک ہے جنہیں انکے گھروں سے بیدخل کیا جا رہا ہے میں یروشلم کی بیٹی ہوں میرے آباؤ اجداد صدیوں سے اس شہر میں رہ رہے ہیں پہلی مرتبہ جب 1948 میں النقبہ ہوا تو میرے دادا کے گھرانے کو اسرائیلیوں نے انکے آبائی گھر سے نکال کر مہاجر بنا دیا وہ ”بقا“ میں واقع اپنے بڑوں کینشانی ایک خوبصورت گھر کو چھوڑ کر یروشلم سے باہر شیخ الجرح میں رہنے لگے رفتہ رفتہ اس نئے گھر کو انہوں نے ذہنی طور پر قبول کر لیا اس گھرکے صحن میں میرے بزرگوں نے درخت اور پھول لگائے ہم انہی درختوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہم اس جگہ کے لوگوں کیساتھ ملکر ایک خاندان کی طرح رہ رہے ہیں ہم فلسطینیوں کیلئے چوہتر سال پہلے کا النقبہ محض ایک واقعہ نہ تھا یہ ہماری زندگی کی ایک مسلسل اور انمٹ حقیقت بن چکا ہے اسرائیلی جب بھی چاہتے ہیں ہمیں ہمارے گھروں سے بیدخل کر دیتے ہیں‘ وہ ہمیں ہماری عبادت گاہوں میں ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ہماری سماجی اور سیاسی تقریبات پر پابندی لگا دیتے ہیں النقبہ زندہ رہنے کی ایک ایسی صورت ہے جو ذاتی بھی ہے اور اجتماعی بھی یہ اپنے گھروں سے کسی بھی وقت بیدخل ہو جانے کے خوف کیساتھ زندہ رہنے کا نام ہے یہ ایک ایسا تجربہ اور کیفیت ہے جو یروشلم میں رہنے والے لاکھوں فلسطینیوں کے جذبہ و احساس کا حصہ بن گیا ہے یہ ایک ایسے سفاک اور بے رحم نظام میں رہنے کا نام ہے جس نے ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کیا ہوا ہے مونا داجانی نے اپنے رنج و الم بیان کرتے ہوے لکھا ہے”یہ جہدوجہد ہمارے لئے نئی بات نہیں ہے ہم کئی عشروں سے یہودی آبادکاروں کو اپنے گھروں میں آباد ہوتا دیکھ رہے ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمیں انصاف مانگنے کیلئے انہی کی عدالتوں میں جانا پڑتا ہے یہ ایسی عدالتیں ہیں ہمیں جن پر کوئی اعتبار نہیں یہ ہمیں انسان نہیں سمجھتیں مگر ہم انہی سے فریاد کرنے پر مجبور  ہیں“مونا داجانی کے داداکا گھرانہ یروشلم سے بیدخل کردیا گیا تھا اب انہیں شیخ الجرح سے بھی نکا لا جا رہا ہے یہ کہانی افسوسناک ضرور ہے مگر المناک اسلئے نہیں کہ اس خاندان کو اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر مسمار کرنے کا حکم نہیں دیا گیامحمد صیندوقہ نے سولہ سال پہلے اپنا گھر مسجد اقصیٰ کے قریب بنا یا تھا بیالیس سالہ صیندوقہ ایک انجینئر ہے ایک ماہ پہلے ایک روز اسکے گھر پر پولیس نے دستک دی اور اسکی بیوی کو پیغام دیا کہ وہ اپنے گھر کو خود ہی گرا دے ورنہ حکومت اسکے گھر کو گرا دیگی اور اگر یہ کام حکومت کو کرنا پڑا تو پھر انہیں بتیس ہزار شیکل(اسرائیلی کرنسی) جرمانہ ادا کرنا پڑیگا یہ دس ہزار ڈالر بنتے ہیں محمد صیندوقہ کی کہانی23 مئی کے نیو یارک ٹائمز کے فرنٹ پیج پر تصاویر سمیت پر شائع ہوئی ہے اسمیں لکھا ہےSuch is life for Palestinians living under Israel's occupation, always dreading the knock at the front doorیہ زندگی ہے اسرائیل کے قبضے میں رہنے والے فلسطینیوں کی جنہیں ہر وقت دروازے پر دستک کا خوف لگا رہتا ہے چھ فلسطینی گھرانوں کو انکے گھر سے بیدخلی کا خوف ہی سڑکوں پر لے آیاتھا اس تباہی کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر باقی کے خوفزدہ لوگ بھی انکے ساتھ چل پڑے تھے اور پھر بہت جلد مشرقی یروشلم کے لوگوں کا احتجاج اسرائیل اور حماس کی خوفناک جنگ کی صورت اختیار گیا اس گیارہ روزہ جنگ میں 248 فلسطینی شہید اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے سینکڑوں خاندانوں اور درجنوں عمارتوں کی تباہی کی یہ المناک کہانیاں بہت جلد بھلا دی جائیں گی غزہ کے فلسطینی چاروں طرف بکھری ہوئی راکھ کے ڈھیر میں سے ایک مرتبہ پھر ایک نئی دنیا تلاش کرنا شروع کر دیں گے انکے گھر اسرائیل بیدردی سے مسمار کرتا ہے مگر مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں کو اپنے گھر خود گرانا پڑتے ہیں محمد صیندوقہ نے امریکی اخبار کے رپورٹر کو اپنی آپ بیتی سناتے ہوے کہا کہ جب پولیس نے کئی مرتبہ اسکے گھر پر دستک دی تو اسنے کہا کہ بہت ہو چکا ایسے گھر میں رہنے کا کیا فائدہ جہاں ہر روز پولیس کی منت سماجت کرنا پڑے اس نے بلآخر پولیس سے کہہ دیا کہ وہ اپنا گھر خودہی گرا دیگا پھر اسنے بیلچے اور کدالیں خریدیں اور اپنے دو بیٹوں کیساتھ ملکر اپنے گھر کی دیواریں گرانے میں لگ گیااسکی بیوی آنسو بھری آنکھوں سے یہ منظر دیکھتی رہی اسکے پندرہ سالہ بیٹے موسیٰ نے اخبار نویس سے کہا کہ ہم نے خود اپنے گھر کو آگ لگا دی موسیٰ کے بڑے بھائی مواتاز نے کہا کہ وہ ہماری زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں وہ ہمیں یروشلم سے نکالنا چاہتے ہیں اخبار نویس نے لکھا ہے کہ اپنے گھر کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے بعد محمد صیندوقہ نے اپنے سیل فون سے اسکی تصویر بنائی اور پولیس کو بھجوا دی اس نے اپنے دکھ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوے کہا کہ اب اسکے پاس دو راستے ہیں ایک تو یہ کہ وہ ویسٹ بینک چلا جائے یا یروشلم ہی میں کرائے کا گھر لے لے مگر ویسٹ بینک کی زندگی یروشلم سے زیادہ تکلیف دہ ہے اور یروشلم کے گھرکا کرایہ اس کے بس سے باہر ہے اخبار نے لکھا ہے کہ گذشتہ سال مشرقی یروشلم میں 119گھر مسمار کئے گئے ان میں سے 79 گھروں کو انکے مکینوں نے خود گرایا ویسٹ بینک کے فلسطینیوں پر جو بیت رہی ہے اسکا ذکر اگلے کالم میں ہو گا۔