غلے کی تقسیم۔۔۔۔۔

لنچ کے اختتام پر لارڈویول نے غالباً ایسے ہی رسمی خوش سگالی کے طور پر مجھ سے دریافت کیا کہ اس سب ڈویژن کے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے میرے ذہن میں کوئی خاص تجویز ہے؟موقع غنیمت جان کر میں نے کھٹ سے اپنی ایک دل پسند تجویز پیش کردی جسے اس سے پیشتر کلکتہ میں ریلیف کمشنر کے سامنے پیش کرکے میں کئی بار منہ کی کھاچکا تھا تجویز یہ تھی کہ تملوک کی سب ڈویژن میں جو لاکھ سوا لاکھ من دھان ایجنٹوں کے گوداموں میں مقفل پڑا ہے اس کا کم ازکم نصف حصہ بھوک کے مارے ہوئے نادار لوگوں میں مفت تقسیم کردیا جائے یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ مستحق لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سچ مچ کا فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔میری تجویز سنتے ہی وائسرائے کی پارٹی پر ایک عجیب سی سردمہری چھاگئی میری تجویز پر اس خاموش تبصرے کے بعد وائسرائے کی پارٹی تملوک سے رخصت ہوگئی۔چند ماہ بعد اچانک سمندر کے جوار بھاٹے میں ایک بار پھر جوش اٹھا اور تملوک کی دوندیوں میں غیر معمولی سیلاب آگیا ان دو ندیوں کے درمیان آٹھ دس گاؤں آباد تھے جو چاروں طرف سے پانی میں گھر کر باقی دنیا سے بالکل کٹ گئے پانی کی دھاراس قدر تیز تھی کہ کشتیوں کے ذریعہ بھی گھری ہوئی آبادی تک پہنچنا دشوار تھا رسل ورسائل کے ذرائع منقطع ہوتے ہی وہاں پر فاقے کی موتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا سیلاب سے گھرے ہوئے علاقے میں ایک گودام تھا جس میں آٹھ ہزار من دھان بوریوں میں بند پڑا تھا میں نے تار پر تاردے کر صوبائی حکومت سے درخواست کی کہ اس گودام سے کچھ غلہ متاثرہ آبادی میں تقسیم کرنے کی اجازت عطا فرمائی جائے‘لیکن وہاں سے کوئی جواب آناتھا نہ آیا ایک روز گودام کے آس پاس تین بچوں اور دو عورتوں کی لاشیں پائی گئیں اب مزید انتظار فضول نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کے مترادف تھا چنانچہ میں نے کانگریس‘مسلم لیگ اور فارورڈ بلاک سے ایک ایک نمائندہ چن کر پولیس کی سرکردگی میں گودام کا تالہ تڑوا دیا اور آدھا دھان ان کے حوالے کردیا اس کمیٹی نے بڑی محنت اور ایمانداری سے یہ غلہ سیلاب زدہ دیہات کے مستحق لوگوں میں تقسیم کردیا۔بنگال کے چیف سیکرٹری نے ایک بے حد روکھے سے خط میں مجھے صوبائی حکومت کی بے اطمینانی‘ ناپسندیدگی اور خفگی سے آگاہ کیا اور میری خدمات صوبہ بہار کو واپس کردیں بہار کے چیف سیکرٹری نے ایک اسی قدر روکھی ٹیلی گرام کے ذریعہ غالباً سزا کے طور پر میرا تبادلہ اڑیسہ کردیا‘مجھے جواہر لال نہرو روڈ پر(جو اب قائداعظم کے مزار کے سامنے ہے) ایک مکان کا نچلا حصہ کرائے پر مل گیا اوپر والی منزل میں ہندو مالک مکان خود رہتا تھا اس نے اپنا خاندان اور مال و اسباب تو بھارت بھیج دیا تھا اور اب مکان اور دکان کو اچھی قیمت پر فروخت کرنے کے انتظار میں یہاں رکا ہوا تھا ساٹھ ستر کا یہ بڈھا بڑا سخت گیر مالک مکان ثابت ہوا ایک تو اس نے تین چار کمروں کا کرایہ ایسا کس کے لگایا کہ اس میں میری آدھی تنخواہ صاف نکل جاتی تھی دوسرے وہ بجلی اور پانی کے استعمال پر نہایت کڑی نگاہ رکھتا تھا آدھی رات کو بھی ضرورتاً کسی کمرے کی بجلی جلائی جائے تو سوئے ہوئے مالک مکان کی چھٹی حس فوراً بیدار ہو جاتی تھی اور وہ واویلا مچانا شروع کر دیتا تھا کہ ”بتی بند کرو‘ بتی بند کرو“ بجلی مفت نہیں ملتی کہ ساری ساری رات جلا کر عیش کیا جائے‘ انہی دنوں کراچی میں ہلکا سا ہندو مسلم فساد ہوگیا کچھ سامان بیچ باچ کر ہمارے مالک مکان نے ڈھائی لاکھ روپیہ نقد جمع کیا ہوا تھا اسے خدشہ محسوس ہوا کہ اگر مسلمانوں نے اسکے مکان پر حملہ کیا تو نقدی بھی لٹ جائے گی حفظ ماتقدم کے طور پر وہ یہ پونجی ماں جی کے پاس امانت رکھنے کیلئے آیا وہ روپے گن کر دینا چاہتا تھا لیکن ماں جی کو دس کے بعد گنتی ہی نہ آتی تھی اسلئے مجھے سامنے بٹھاکر اس نے ڈھائی لاکھ روپیہ دوبار گنا اور اسے ایک چمڑے کی تھیلی میں تالہ لگاکر ماں جی کے حوالے کر دیا مجھ سے اس کی رسیدلکھواکر اپنے پاس محفوظ کرلی ماں جی نے اس امانت کی بڑی رکھوالی کی رات کو وہ اس تھیلی کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سوتی تھیں نماز کے لئے بھی وہ اسے اپنے گھٹنے کے ساتھ لگا کر بیٹھتی تھیں دو تین روز میں امن وامان قائم ہوگیا بڈھے مالک مکان نے مجھے پھر سامنے بٹھاکر ڈھائی لاکھ روپیہ دوبارہ گنا‘ رسید مجھے لوٹائی اور اپنی امانت بغل میں دباکر اوپر والی منزل میں واپس چلا گیا‘میرا خیال تھا کہ ہماری اس خدمت گزاری کے عوض مالک مکان بجلی اور پانی کے سلسلے میں شاید اب ہمارے ساتھ کسی قدر نرمی کا برتاؤ دکھائے گا کئی بار تو وہ بجلی کا مین سوئچ سرشام ہی بجھا کر بیٹھ جاتا تھا اور ہم موم بتی جلا کراپنا کام چلاتے تھے رات کو پنکھا چلا کر سونا تو بڑی دور کی بات تھی ایک دوبار میں نے ارادہ بھی کیا کہ اس نامعقول بڈھے سے اس بارے میں جھگڑا کروں لیکن ماں جی نے یہ کہہ کر منع کردیاکہ بیچارہ دکھی ہے بے گھر ہو کر بمبئی جارہاہے اس وقت اس کا دل بالکل نہیں دکھانا چاہئے۔(قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ سے اقتباس)