صرف ایک ہنر۔۔۔۔۔۔۔۔

جن دنوں پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو رہا تھا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کراچی چھوڑنے سے پہلے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر عمرہ ادا کر آؤں۔ اس مقصد کیلئے مجھے اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے کچھ رقم نکلوانے کی ضرورت تھی۔ اے جی پی آر کی ہدایت کے مطابق میں نے ایک فارم بھرا جس پر اپنے ہیڈ آف آفس کے دستخط کروانے بھی لازمی تھے دفتر والوں نے کہا کہ میرے ہیڈ آف آفس بھی صدرایوب بذات خود ہیں‘ اسلئے مجھے ان سے بھی دستخط کروانا ہوں گے۔ مجھے اس بات میں کسی قدر تردد تھا کہ اتنی چھوٹی سی بات پر ان کو کیا تکلیف دوں‘ لیکن ضابطے کی خانہ پری بھی ضروری تھی اس لئے وہ فارم ان کی خدمت میں دستخطوں کے لئے بھیج دیا‘ ساتھ ہی پندرہ دن کی چھٹی کی درخواست بھی بھیج دی۔تھوڑی دیر کے بعد صدر ایوب ان کاغذات کو ہاتھ میں لئے میرے کمرے میں آئے اور میری ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے‘ مسکرا کر بولے ”پراویڈنٹ فنڈ تو ریٹائر ہونے کے بعد کام میں لایا جاتا ہے۔ تم ابھی سے اس میں سے یہ رقم کیوں نکلوا رہے ہو؟ میں نے اپنی بیوی کیساتھ عمرہ پر جانے کا ارادہ بتایا تو وہ کسی سوچ میں پڑ گئے ”اگر ارادہ تھا تو تنخواہ میں سے پیسہ بچا بچا کر رکھتے۔ پراویڈنٹ فنڈ میں سے کچھ نکلوانا دور اندیشی کی بات نہیں۔ میں خاموش رہا تو انہوں نے جیب سے اپنی ذاتی چیک بک نکالی اور فرمایا اس رقم کے برابر میں تمہیں اپنا ذاتی چیک دیتا ہوں۔ نصف رقم تم اپنی سہولت سے رفتہ رفتہ واپس ادا کر دینا‘ باقی نصف میرا تحفہ سمجھو۔ان کے اس الطاف کریمانہ سے میں بے حد متاثرہوا اور شکریہ ادا کرکے انتہائی لجاجت سے میں نے انہیں سمجھایا کہ عمرہ جیسے دینی سفر پر مجھے اپنے خرچ ہی سے جانا چاہئے اس کے بعد اگر مجھے کبھی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی فیاضی سے ضرور فائدہ اٹھاؤں گا‘یہ سن کر وہ زور سے ہنسے اوربولے ہر روز عیدنیست کہ حلوہ خورد کسے‘ اس کے بعد میرے فارم پر انہوں نے خندہ پیشانی سے دستخط کر دیئے۔ یہ معمولی سا واقعہ مالی‘ اقتصادی اور معاشی زاویوں سے صدر ایوب کے ذہنی رجحانات اور ذاتی کردار پر نہایت دلچسپ روشنی ڈالتا ہے۔۔ قدرت اللہ شہاب اپنے سفر حج کے دوران ایک مصری سرمایہ دار محمد نوفل کا واقعہ لکھتے ہیں کہ دن بھر کیبن کی کھڑکی سے ہوا کے جھونکے کھولتے ہوئے پانی کے پرنالوں کی طرح اندر گرتے تھے رات کو پورٹ ہول کی ہوا نیم گرم بخارات کی صورت اختیار کرلیتی تھی کچھ کمروں میں بجلی کے پنکھے لگے ہوئے تھے لیکن ان کی گردش رطوبت سے لدی ہوئی بوجھل ہوا کو اپنی جگہ سے ہلانے سے قاصر تھی دھوپ میں آفتاب کی کرنیں لوہے کی گرم گرم سلاخوں کی طرح لٹک رہی تھیں اور جہاز کے ہر مسافر کا چہرہ پسینے کی جھالر میں لپٹا ہوا تھا اس کے باوجود عازمین حج کی ٹولیاں بڑے اطمینان سے عرشے پر جابجا بیٹھی تھیں کچھ لوگ تلاوت قرآن میں مصروف تھے کچھ تسبیح کررہے تھے  ایک کونے میں محمد نوفل صاحب بھی کرسی پر بیٹھے تھے اور کٹی ہوئی برف کی پوٹلی بار بار سرپر پھیر رہے تھے۔دھوپ میں اطمینان سے بیٹھے ہوئے عازمین حج کی طرف دیکھ کر محمد نوفل نے سرد آہ بھری اور کہا’میں بھی ان لوگوں کا ہم وطن ہوں لیکن ہمارے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے یہ غریب لوگ ہیں‘ان کے سینے میں قناعت کی اتنی خنکی ہے کہ گرم موسم کی شدت ان پر کوئی اثر نہیں کرتی میرا معاملہ دوسرا ہے میں بڑا کامیاب تاجر اور صنعتکار ہوں میں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں اس پر ہن برسنے لگتا ہے لیکن میرا دل نہیں بھرتامحمد نوفل نے برف کی ڈلی منہ میں ڈال کر کچھ دیر اسے چوسا اور پھر بولا یہ تپش میرے مقدر میں لکھی ہے میں اسے چھوڑنا بھی چاہوں تو چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ دولت کمانے کے علاوہ مجھے اور کوئی ہنر نہیں آتا۔(شہاب نامہ سے اقتباس)