افغان جنگ کے متاثرین اور اسمیں دلچسپی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی انخلاء کے بعد اس ملک میں ایک نئی خانہ جنگی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا افغانستان کے ہمسایوں کو یہ فکر لا حق ہے کہ اس نئی محاذ آرائی نے پورے خطے کو ایک مرتبہ پھر طویل عرصے کیلئے غیر مستحکم کر دینا ہے دوسری طرف امریکہ کو جو ان گنت خدشات لاحق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ نیٹو ااور امریکی افواج کی واپسی کے بعد کابل حکومت کا دفاع کیسے کیا جائیگااور مختلف جنگجو گروہوں کی حرکات و سکنات پر کیسے نگاہ رکھی جائیگی بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے آخری امریکی سپاہی کی بحفاظت واپسی کا بندو بست کر دیا گیا ہے اسکا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ ویت نام جنگ کے خاتمے کی طرح کسی امریکی فوجی کو دشمن ملک سے اڑنے والے آخری جہاز سے لٹکنا نہیں پڑے گاسائیگاؤں سے تیس اپریل1975 کو جو آخری امریکی جہاز اڑا تھا اس سے لٹکنے والے ایک فوجی کی تصویر دنیا بھر کے اخبارات نے شائع کی تھی یہ تلخ حقیقت امریکی نفسیات پر ایک انمٹ نقش کی طرح ثبت ہو چکی ہے ا مریکہ کسی بھی صورت اس عبرتناک انجام کا ایکشن ری پلے نہیں چاہتااسی لئے صدر بائیڈن نے پہلے انخلاء کی تکمیل کیلئے گیارہ ستمبر کی تاریخ دی تھی پھر اچانک جولائی کے اختتام سے پہلے امریکی افواج کی واپسی کا اعلان کر دیا گیا ایسا کیو ں ہوااسکی وجہ اگر چہ کہ بائیڈن انتظامیہ نے نہیں بتائی مگر افغانستان سے متعلق ایک خبر میں لکھا ہوا تھا کہ اب جبکہ فوجوں کی واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے تو ایسے میں کسی امریکی فوجی کی ہلاکت ایک اشتعال انگیز واقع ہو گا ادھر طالبان اعلان کر چکے تھے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق اگر اپریل کے اختتام سے پہلے تمام غیر ملکی افواج واپس نہ گئیں تو وہ ان پر حملے شروع کر دیں گے یہ حملے کیونکہ ابھی تک شروع نہیں ہوے اسلئے کہا جا سکتا ہے کہ فریقین میں ایک خفیہ معاہدہ ہو چکا ہے جسکی روح سے انخلا ء کی تاریخ تبدیل کر دی گئی ہے گویا طالبان نے امریکہ کو بحفاظت واپسی کیلئے تین ماہ کی مہلت دے دی ہے۔اس تصفیے کے بعد سی آئی کو یہ مشکل درپیش ہے کہ اگلے مرحلے میں افغانستان میں Intelligence gathering یعنی خفیہ معلومات کیسے اکٹھی کی جائیں گی بیس سال کی جنگ کے دوران دشمن کی جاسوسی اور سراغ رسانی اسلئے مشکل نہ تھی کہ سی آئی اے خود میدان جنگ میں موجود تھی اسنے وسائل اور سرمائے کا بے دریغ استعمال کر کے مقامی جاسوسوں کا ایک نیٹ ورک بنا رکھا تھا جو اسے ہر قسم کی اطلاع مہیا کر دیتا تھا کہتے ہیں بم پھینکنے سے پہلے اس جگہ کا پتہ لگانا ہوتا ہے جہاں بم پھینکا جاتا ہے سی آئی اے کو افغان جاسوس تو اب بھی میسر ہوں گے مگر انکی فراہم کردہ اطلاعات کا تجزیہ کرنے کیلئے اسے کسی ٹھکانے کی ضرورت ہے وہ ٹھکانہ اگر میدان جنگ سے دور ہوا تو پھر خفیہ اطلاعات پر ایکشن ہونے تک بازی مات ہو چکی ہو گی آجکل سی آئی اے کی ان مشکلات کا ذکر امریکی میڈیا پر ہو رہا ہے لگتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ رائے عامہ کو اس دن کیلئے تیار کر رہی ہے جب طالبان کابل پر فتح کا جھنڈا لہرا دیں گے امریکہ کے منہ زور میڈیا نے ابھی سے کہناشروع کر دیا ہے کہ سی آئی اے اور پینٹا گون نے بیس برس تک یہ جنگ لڑی‘ دو کھرب ڈالر لگائے2400امریکی سپاہی ہلاک ہوے‘ نیٹو کا مالی اور جانی نقصان اسکے علاوہ ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ جس ملک میں القاعدہ کو ختم کرنے اور جمہوریت قائم کر نے گیا تھا وہاں وہ اپنی قائم کردہ حکومت کا دفاع تک نہیں کر سکتا افغان جنگ کے متاثرین اور اس میں دلچسپی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ طالبان کی فتح کا یہ دن جلد یا بدیر آنیوالا ہے اس دن امریکہ کا نامہ اعمال اسکے ہاتھ میں ہو گا اس دن سوویت یونین کی طرح امریکہ کو بھی اپنے زخم چاٹنے پڑیں گے امریکہ اس دن کو ٹالنا چاہتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کر کے اس لمحے سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے مگر سی آئی اے غیر متوقع طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ کابل حکومت کا طویل عرصے تک دفاع نہیں کیا جا سکتا ایک تازہ خبر کے مطابق اسوقت سی آئی اے افغانستان کے آس پاس کوئی ٹھکانہ ڈھونڈنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اسے کسی ایسے سفینہ نجات کی تلاش ہے جہاں سے وہ جہاز اڑا کر گھنٹوں میں نہیں منٹوں میں افغانستان پہنچ جائے۔ سات جون کے نیو یارک ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق امریکی سفارتکار ابھی تک پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کیساتھ رابطے میں ہیں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکہ کو اڈے نہیں دینگے امریکی سفارتکار تاجکستان‘ کرغیزستان اور ازبکستان کے حکام سے بھی بات چیت کر رہے ہیں مگر انہیں ابھی تک کامیابی اسلئے حاصل نہیں ہوئی کہ ولادیمیر پیوٹن نے ان ریاستوں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے ان سفارتی ناکامیوں کے بارے میں اخبار نے لکھا ہے کہ افغان جنگ جو ابھی تک جاری ہے کی پیچیدگیوں نے سفارتی گفت و شنید کو خاصا مشکل بنا دیا ہے ان مشکلات کو حل کرنے کیلئے امریکی کوششوں پر مزید گفتگو اگلے کالم میں ہو گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
دہشت گرد‘ سوٹ اور ٹائی
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
امریکہ افغانستان تعلقات
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
امریکہ افغانستان تعلقات (آخری حصہ)
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی