شہر پشاور کے بارے میں کہتے ہیں کہ دو ہزار سال کے دوران اس میں ایک روز بھی سناٹا نہیں ہوا ٗپاکستان کا یہ سب سے قدیم آباد شہر ہے ٗیونانی اور عربی مورخوں اور چینی سیاحوں نے اپنی کتابوں میں پشاور کا ذکر بڑے چاؤ سے کیاہے ٗ بڑے تاریخ دان ڈاکٹر احمد حسن دانی اس بات پر بہت مسرور تھے کہ پرانے پتھروں نے پشاور کا بھید کھول دیا ہے ٗجہاں تک پرانے پتھروں کا تعلق ہے پشاور شہر کی بنیاد ہی پرانے پتھروں کے اوپر رکھی ہے حاجی محمد یوسف صاحب نے اپنا نیا مکان بنوانے کے لئے بنیادیں کھودیں تو ان میں کشان دور کے مٹی کے برتن اور بچوں کے کھلونے ٹوکرے بھر کر نکلے۔اس شہر میں تاریخ کی ایک اور بڑی یادگار تھی جی ٹی روڈ اور ریلوے لائن کے درمیان یہاں پنج تیرتھ تھا۔جرنیلی سڑک کے کنارے بالاحصار کا قلعہ اب تک سینہ تانے کھڑا ہے شاید جتنا پرانا شہر پشاور ہے اتنا ہی قدیم یہ قلعہ ہے‘ پشاور کے قلعہ بالاحصار کے بارے میں دانی صاحب نے دلچسپ باتیں بتائیں۔”یہ قلعہ کئی دفعہ مسمار ہوا ٗ پھر بنا ٗ لیکن مغلوں نے اسے چھوڑا نہیں ٗاور ہمیں داد دینا چاہئے کہ پہلا راستہ خیبر کے ذریعے اکبر کے زمانے میں اس کے انجینئروں نے بنایا تھا اور پشاور کو گرینڈ ٹرنک روڈ کے ذریعے کابل سے اکبر کے زمانے میں ملایا گیا‘بالآخر آزادی آئی صدیوں تک پشاور بنتا رہا اور بگڑتا رہا ہماری جرنیلی سڑک پر کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک عظیم الشان شالیمار باغ بھی تھا ڈاکٹر دانی نے اس کے بارے میں بتایا۔”شاہ جہان کے زمانے میں یہاں پر ایک شالیمار باغ بنا تھا جس کو بعد میں کننگھم پارک کہا گیا اور اب جناح پارک کہتے ہیں پشاور کو اب دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ کبھی پھولوں کا شہر رہا ہوگا اب یہ مٹیالا سا پتھریلا سا شہر ہے انگریزوں نے اپنے کنٹونمنٹ کو خوب نکھارا تھا۔ وہ نکھار اب بھی ہے مگر پرانا شہر اور پرانا ہوتا جا رہا ہے‘ کچھ ایسی ہی بات اس روز ڈاکٹر دانی نے کہی۔”آج پشاور شہر بہت بدل گیا ہے پہلے پشاور شہر ایک قلعے کے اندر تھا قلعے کی فصیل تھی شہر پناہ تھی یہ گھرا ہوا شہر تھا اب پشاور شہر کھلا ہوا شہر ہے ساری دیواریں سارے دروازے توڑ دئیے گئے ہیں سارے جنگلات ختم ہوگئے ہیں بلکہ جنگلات کی جگہ اب وہ کالے پہاڑ نظر آتے ہیں۔“
(رضا علی عابدی کے نشرپروگرام سے اقتباس)