دلچسپ فرمائش۔۔۔۔

ماضی میں ریڈیو کی مقبولیت کا یہ عالم رہا کہ بچے بڑے سب تفریح کے لئے ریڈیو کے گرد ہی جمع رہتے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ ہمارے بعض قارئین کو شہزادی عابدہ سلطان یاد ہوں گی جو ریاست بھوپال کے آخری فرمانروا حمید اللہ خان کی بڑی بیٹی تھیں اور اگر ریاستیں برقرار رہتیں تو وہ بھوپال جیسی عظیم ریاست کی حکمران ہوتیں۔ شہزادی عابدہ سلطان بعد میں پاکستان چلی گئیں۔ ان کے بیٹے شہریار خان پاکستان کے امور خارجہ کے سیکرٹری تھے۔ بعد میں وہ ہائی کمشنر مقرر ہوکر برطانیہ آئے‘اسی دوران شہزادی عابدہ سلطان بیٹے کے پاس لندن آئیں اور ہائی کمشنر سے دلچسپ فرمائش کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ بی بی سی لندن کی اردو سروس کے پروگرام شاہین کلب میں حصہ لینے والوں سے ملنا چاہتی ہیں۔ ہائی کمیشن نے بی بی سی سے پوچھا کہ کیا ایسا ممکن ہے‘ جواب ملا: سر آنکھوں پر۔ ضرور تشریف لائیے۔ چنانچہ وہ شاہین کلب کے سٹوڈیو میں آئیں اور پروگرام میں طویل انٹرویو دیا۔ سدھو بھائی نے ان سے ان کے بچپن کے بارے میں سوال کئے۔ مثلاً ان سے پوچھا کہ کیا آپ شرارتیں کرتی تھیں؟ اور یہ کہ بزرگوں نے کبھی آپ کی شرارتوں پر آپ کے کان کھینچے۔ انہوں نے مزے مزے کے جواب دئیے اور بزرگوں کے ادب کے بارے میں سننے والوں کو بہت دلچسپ باتیں بتائیں۔ بزرگوں پر یاد آیا کہ ان ہی دنوں مجھے سندھ کے بڑے شہر حیدر آباد جانے کا اتفاق ہوا اور مجھے اپنے وقت کے بڑے عالم علامہ غلام مصطفی قاسمی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان کا علم نور بن کر ان کے چہرے سے پھوٹتا تھا۔ وہ شاہین کلب کے بڑے مداح نکلے۔ کہنے لگے کہ ہر ہفتے ضرور سنتا ہوں۔ میں نے کہا ”علامہ! وہ تو بچوں کا پروگرام ہے۔“کہنے لگے ”میرے بچے سنتے ہیں۔ ان ہی کے ساتھ بیٹھ کر میں بھی اشتیاق سے سنتا ہوں۔“ میں نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو اپنے بچوں سے مجھے بھی ملوائیے۔ علامہ نے فوراً آواز دے کر انہیں بلا لیا۔ ان میں غالباً دو ڈاکٹر اور ایک پروفیسر تھے۔ میں اپنے اسی دورے میں لاہور پہنچا اور وعدے کے مطابق لاہور کے نواحی گاؤں اجودھیاپور والوں سے ملنے گیا۔ وہاں رات کے کھانے کی دعوت تھی۔ ایک دیگ بھر کے چنے کی دال اوردوسری دیگ میں چاول پکے۔ گاؤں کی ساری آبادی جمع ہوگئی۔ بڑے دالان میں چارپائیاں ڈال دی گئیں اور اتنا بڑا مجمع مجھے گھیر کے بیٹھ گیا۔ اب امتحان کی کڑی گھڑی آن پہنچی۔ مجھ سے فرمائش ہوئی کہ شاہین کلب کا وہ واقعہ سنائیے جس میں آپ کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے اور سدھو بھائی بھولی ہوئی باتیں یاد کرنے میں آپ کی مدد کرتے ہیں۔ میں اس کے لئے قطعاً تیار نہ تھا۔ مجھے معلوم ہوتا تو پروگرام کا ٹیپ یا سکرپٹ کے ساتھ لے جاتا۔ لاکھ معذرت کی لیکن گاؤں والوں نے میری ایک نہ سنی۔ تھک ہارکر میں نے اپنا اور سدھو بھائی کا وہ تاریخی واقعہ سنانا شروع کیا۔ رضا علی عابدی  ایک اور تحریر میں لکھتے ہیں کہ سیدھی سڑکیں ٗسیدھی گلیاں ٗگول چوراہے ٗ گھنٹہ گھر اور آرائشی دروازے۔ مجھے اپنے سفر کے دوران ہوائی جہاز میسر نہ تھا ورنہ اوپر فضا میں جاکر دیکھتا‘ آج کمپیوٹر پر گوگل ارتھ میں دیکھا وزیر آباد ہی نہیں ٗ اگلے پڑاؤ گوجرانوالہ میں بھی سڑکیں قرینے سے بنی نظر آتی ہیں  میر عطا محمد صاحب سے ملنا ہمیشہ یاد رہے گا اس وقت اسی برس کے ہو رہے تھے مگر انہیں یہ اسی برس صاف تصویر کی طرح یاد تھے بتا رہے تھے کہ ان کے زمانے میں خاک دھول اڑاتی ہوئی آندھی آتی تھی تو لوگ کہا کرتے تھے کہ کہیں کوئی قتل ہوگیا ہے بعد میں یہ بات سچ نکلتی تھی پھر بولے”اب تو روزانہ کئی قتل ہوتے ہیں۔“آندھی نے تنگ ہو کر آنا ہی چھوڑ دیا۔ایک رات کے لئے میں قریبی گاؤں سید نگر چلا گیا بڑی پرسکون بستی تھی میں ایک بڑے دالان میں بیٹھا تھا اور گاؤں کے چھوٹے بڑے میرے گرد حلقہ کئے بیٹھے تھے اس رات فضا اتنی شفاف تھی کہ آسمان کا ایک ایک ستارہ صاف نظر آتا تھا۔میں نے کہا”اوہ ٗ کتنے بہت سے ستارے ایک جگہ جمع ہیں۔“ایک چھوٹی سی لڑکی بولی”وہ کہکشاں ہے۔“شہر والے کیا جانیں قدرت کی ان نفاستوں کو۔ میری راہ میں جو اگلا شہر آنے والا ہے جس میں کبھی ستر سے زیادہ باغ تھے ٗبارہ دریوں ٗفواروں اور محلوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ وہاں راتوں کو کہکشاں ضرور نظر آتی ہوگی۔ اب تو ٹریفک کا دھواں اور اس میں خاک دھول کی آمیزش نظر آتی ہے اس شہر کا نام ہے لاہور ٗ پشاور سے کلکتے تک راستے میں پڑنے والا یہ واحد شہر ہے جو مسلسل ترقی کر رہا ہے اور ترقی بھی ایسی کہ اس میں خوش ذوقی شامل ہے‘میں نے اعلان کردیا کہ بس اب کچھ اور نہیں دیکھنا۔میرا سفر یہیں تمام ہوا۔