خواتین و حضرات! میں رویے کی تبدیلی کی بات کر رہا تھاایک نوجوان نے بندوق سے بانسری بناکر کس طرح ایک خوفناک چیز کو کس خوبی کیساتھ ایک مثبت کام یا رویے میں تبدیل کرلیا تھا اور وہ اس سے گھبراتا نہیں تھا اور اس پر قابو رکھتا تھا جب میں فرسٹ ایئر میں تھا تو میں امریکہ کی اس اندھی‘ گونگی اور بہری بچی ہیلن کے بارے میں پڑھ کر حیران رہ گیا اس کو قدرت نے کوئی صلاحیت نہیں دی اسکے پاس صرف خوشبواور لمس کو محسوس کرنے کی طاقت تھی وہ اپنی خودنوشت میں لکھتی ہے کہ میں نے خود کو زندوں میں شامل کرنیکا ارادہ بنایا اور جو منفی چیزیں مجھ پر وارد کردی گئی ہیں میں انہیں مثبت میں تبدیل کروں گی لیکن خواتین و حضرات وہ اس طرح نہیں گھبرائی پھرتی تھی جس طرح ہمارے بچے ایم بی اے کرنے کے بعد گھبرائے پھرتے ہیں اور چادر تان کے لیٹ جاتے ہیں اس لڑکی نے اپنی ایک سہیلی کو بتایا کہ جب میں تمہارا ہاتھ اس طرح دباؤں تو اس کا مطلب مثال کے طورپر”اے“ ہوگا دوسری طرح دباؤں تو اس کا مطلب”بی“ ہوگا اس نے اپنی بات سمجھانے کیلئے اپنی دوست کو خود سے اشارے بتائے اور اس طرح اس نے ایک نئی زبان کو جنم دیا وہ اپنی سہیلی کا ہاتھ دباتی جاتی تھی اور اسکی سہیلی اسکی باتوں کو سمجھتی جاتی تھی اور لکھ لیتی تھی وہ اپنی خود نوشت میں کہتی ہے کہ اگر مجھ میں یہ خامیاں نہ ہوتیں تو میں اتنی نامور رائٹر نہ ہوتی اور میں ایک عام امریکی عورت کی طرح چولہے چونٹھے پر کام کرتی فوت ہوگئی ہوتی لیکن میری ساری خامیاں میرا بہت بڑا سہارا بن گئیں وہ پاکستان بننے کے دوسرے تیسرے سال لاہور آئیں میری بھی ان سے ملنے کی بڑی خواہش تھی خدا کا شکر کہ میری ان سے ملاقات ہوئی وہ ہمارے سوالوں کا کھٹا کھٹ جواب دیتی وہ اپنی خامیوں پر فخر کرتی میں بھی اپنے پیارے بچوں کو مایوس دیکھنا نہیں چاہتی اگر میرے بچے اپنے خیالات کو مثبت انداز میں ڈھالیں وہ بہت سی مشکلات سے نکل سکتے ہیں ان کی یہ گھبراہٹ بہت زیادہ انفارمیشن ملنے کی وجہ سے بھی ہے میرے بچے روانڈا کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں اور اپنے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اپنی ذات کا مطالعہ کرنا بھی بہت ضروری ہے اس نے اپنے اللہ کو پہچان لیا اسلئے خود کی پہچان کرنا بہت ضروری ہے۔(اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے انتخاب)