حسرت موہانی کی یاد۔۔۔۔

رضا علی عابدی اپنے سفرنامے میں جس شہر کا ذکر کرتے ہیں اس کے اہم لوگوں کا ذکر بھی اس میں شامل ہوتا ہے کانپور کو وہ حسرت ہی کا شہر قراردیتے ہوتے لکھتے ہیں کہ کنور مہندر سنگھ بیدی ان لوگوں میں سے ہیں جو ہندوستان میں اردو کے چراغ کوروشن کئے ہوئے ہیں کانپور کی سرزمین نے یوں بھی ان گنت دیئے جلائے جن کی کرنیں آج بھی بھی غریب کی کٹیا کو منور کئے ہوئے ہیں حسرت موہانی پر یہ شہر صدیوں ناز کریگا مجھے کسی نے بتایا کہ غریبوں کے دکھ دور کرنے کا ان کا مشن پھر سے جی اٹھا ہے اور چمن گنج کے علاقے میں خدا کے نیک بندوں نے حسرت موہانی کے نام پر غریبوں کے لئے ہسپتال قائم کیا ہے میں وہاں پہنچا حسرت موہانی چیر ٹیبل ہاسپٹل پرانی سی‘تاریک سی عمارت مگر اندر جاکر دیکھئے نور ہی نور بھرا ہوا نیکیوں کا محبتوں کا اور عبادتوں کا نور بہت سے ڈاکٹر مریضوں کو دیکھ رہے ہیں بہت سا عملہ دکھیوں کو سنبھال رہا ہے دوائیں دی جارہی ہیں انجکشن لگ رہے ہیں آپریشن ہورہے ہیں اور پریشان حال لوگوں کی ڈھارس بندھائی جارہی ہے ہسپتال کے نگراں ڈاکٹر عزیز احمد تھے جنہیں اٹھارہ سال کی کامیاب پریکٹس کے بعد یہ خیال آیا کہ دنیا اپنی ہی ذات تک محدود نہیں اس سے آگے بھی ہے چنانچہ لاکھوں غریبوں کی بستی کے بیچوں بیچ یہ بے مثال ہسپتال ایک مینار بن کر اٹھا ڈاکٹر عزیز احمد بتا رہے تھے۔ ایک روپے کی پرچی پر مریض دس دن تک مفت علاج کراسکتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ روزانہ تقریباً کتنے مریض آتے ہوں گے؟ انہوں نے کہا ہمارے ہاں اس وقت قریب ڈیڑھ پونے دوسو مریض صبح اور شامل میں آتا ہے میں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ اس علاج کا خرچہ ایک روپے سے تو پورا نہیں ہوسکتا اور آپ کو کافی وسائل کی پیسے کی ضرورت ہوتی ہوگی وہ آپ کہاں سے لاتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ایسا ہے کہ ہماری یہ سوسائٹی ہے ہر آدمی خواہ وہ کسی بھی قوم یا مذہب کا ہو وہ ایک سو روپے کا ممبر بنتا ہے پڑھے لکھے لوگو ں کو ممبر بنایا جاتا ہے اور جو ہمارے ہاں کے خوشحال لوگ ہیں اور جو کاروباری طبقہ ہے یہ ہمارے ہسپتال میں آتے ہیں آنے کے بعد کوئی دو ہزار روپے کوئی پانچ ہزار روپے کوئی آٹھ ہزار روپے عطیہ دے جاتا ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ دو امنگا لیجئے گا جو بھی ادویات کی ضرورت ہویا اوزاروں کی ضرورت ہو وہ منگا لیجئے گا۔ایک اور مقام پر رضاعلی عابدی نے ایک تاریخی باغ کا ذکر کیا جو کبھی شہر لاہور کو حلقہ کئے ہوئے تھا مگر وقت نے اسے مٹا دیا‘ احمد ندیم قاسمی صاحب نے اسکا دلچسپ حال سنایا”وہ باغ میں نے دیکھا ہے بھاٹی دروازے سے لیکر آگے چلے جائیے‘ لوہاری دروازہ‘ موچی دروازہ‘دلی دروازہ‘شیراں والا دروازہ اور ٹکسالی دروازہ ان سب کو وہ باغ ملاتا تھا‘وہاں پنجابی کے شاعروں کی محفلیں لگتی تھیں پنجابی کے شاعر وہاں آکر اپنا کلام سناتے تھے‘ ایک دنیا جمع ہوتی تھی‘اڈے بنے ہوتے تھے کہ یہ فلاں شاعر کا اڈہ ہے‘یہ فلاں شاعر کا اور یہ فلاں شاعر کا۔ وہاں میں نے دیکھے ہیں بانسری بجانے والے‘ ایک بانسری بجانے والا بیٹھا ہے اور ایک مخلوق جمع ہے اور جھوم رہی ہے اور وہ جو بانسری بجا رہا ہے وہ پیسے کیلئے نہیں‘ بس ماحول کو خوشگوار بنانے کیلئے مگر وہ باغ اب نہیں رہا‘ اسکا بہت سا حصہ ختم ہوگیا‘سوائے موچی دروازے کے اور کوئی باغ باقی نہیں رہا‘انکی جگہ دکانیں بن گئی ہیں‘ مارکیٹیں بن گئی ہیں اور شہر پھیلتا چلا جارہا ہے اور یہ کہ جتنا پھیلاؤ اسکا ہو رہاہے وہ ماڈرن ہو رہاہے تو میں نے ایک بار ایک شعر میں کہا تھا۔
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
وہ سرحدیں ٹوٹ رہی ہیں، گلستانوں کی ہوں یا ہماری روایات کی ہوں‘ وہ ٹوٹ رہی ہیں‘ کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ انہیں اتنا بچا لیاجائے اور اتنا باقی رکھ لیا جائے کہ نئی نسل انہیں دیکھ لے اور ان سے متعارف ہوجائے۔
اس روز میں لاہور کا انارکلی بازار دیکھنے اور اس سے متعارف ہونے گیا‘غضب کا شور مچا ہواتھا‘لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے علاقہ کی بجلی بند تھی اورہر دکاندار اپنی بجلی آپ پیدا کررہا تھا‘ دکان کے باہر اس نے گوجرانوالہ‘ گجرات اور سیالکوٹ کے بنے ہوئے جنریٹر چلا رکھے تھے جن کے شور سے یہ حال تھا کہ دکان دار تیس روپے بتاتا تھا گاہک بیس روپے سنتا تھا‘جہاں زیادہ جنریٹر چل رہے تھے وہاں تو دکاندار کے بتائے ہوئے ساٹھ روپے مجھے سات روپے سنائی دئیے۔رہی سہی کسر کیسٹ کے دکانداروں نے پوری کر دی‘پاکستان میں اب کیسٹ کا اتنا رواج ہے کہ وہ گراموفون اوران کے وہ گراموفون ریکارڈ جو عرف عام میں توے کہلاتے تھے اب نہیں بنتے لیکن انارکلی میں ایک عجوبہ روزگار دکان دیکھی جس میں نہ صرف توے بلکہ چابی بھرنے والے اور بھونپووالے گراموفون بھی سجے تھے۔ خوش ہوکر دکان کے اندر گیا اور پوچھا کہ آپ کے پاس سہگل‘ پنکج ملک‘ کملا جھریا‘ کانن اور عظیم پریم راگی کے ریکارڈ ہیں؟ ایک بزرگ نے چشمے کے اوپرسے مجھے نیچے تک دیکھا اور کوئی اتنی سخت بات کہی کہ یادداشت پر لاکھ زور دیتاہوں‘ یاد نہیں آتی۔