ہنڈاور حضرو۔۔۔۔

رضا علی عابدی دلچسپ انداز میں دریائے سندھ کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ دریائے سندھ یوں تو خاموشی سے بہا جارہا ہے لیکن اگر اس کے منہ میں زبان ہوتی تو یہ رات دن تاریخ کی داستانیں سنایاکرتا‘ یہ بتایا کرتا کہ کیسے کیسے لشکروں نے اسے پار کیا کیسی کیسی فوجیں اس کے کنارے آپس میں ٹکرائیں اور کب کب اس کا پانی سرخ ہوا‘دریائے سندھ کے دوکناروں پر دو مقامات ایسے ہیں جو میں خاص طور پر دیکھنا چاہتا تھا پشاور کی جانب ہنڈاور راولپنڈی کی جانب حضرو‘ شمال سے جولشکر ہندوستان آیا کرتے تھے ان کے گھوڑے اسی ہنڈ کے مقام پر دریا میں اترتے تھے اور احتیاط سے قدم اٹھاتے ہوئے اسی حضرو کے قریب دوسرے کنارے پر چڑھتے تھے یہی کنارہ چھچھ کہلاتا ہے میں اسی چھچھ کو دیکھنے حضرو پہنچا‘ کہتے ہیں کہ 24 میل چوڑا اور 12میل لمبا یہ علاقہ پیالے کی شکل کا اور پان کے پتے جیسا ہے اس کے تین کنارے اونچے اور چوتھا کنارہ نیچا ہے بالکل جیسے اپنی طرف دانے پھٹکنے کا چھاج ہوتا ہے سکند اعظم اسی چھچھ کے گاؤں ملاح میں داخل ہوا تھا‘سنہ ایک ہزار کے ذرا بعد راجہ آنند پال اور محمود غزنوی کی لڑائی یہیں حضرو کے مقام پر ہوئی سید احمد شہید نے یہیں سکھوں سے ٹکر لی تھی اور مولانا ظفر علی خاں کو یہیں حضرو میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔میں حضرو پہنچا تو شہر کے گرد خونخوار سرسبز فصلیں کھڑی تھیں کھیتوں میں ٹیوب ویل اور ٹریکٹر چل رہے تھے زمین سے ہرے پودے پھوٹے پڑرہے تھے اورہوا تک کی رنگت سبز ہوگئی تھی‘ کسانوں کے بیٹے شہر کے انٹر کالج کی طرف جارہے تھے اور دکانیں کھل رہی تھیں میں حضرو کے کوٹلہ بازار پہنچا‘ جہاں میری ملاقات محمد روح اللہ خاں صاحب سے ہوئی یوں تو لوہے کے سامان کی دکانیں چلاتے ہیں مگر غزل بھی کہتے ہیں اور ادب سے بھی گہرا تعلق ہے اس چھوٹے سے شہر سے چھوٹا سا ادبی رسالہ نکالتے ہیں اور شعرو سخن کی محفلیں آراستہ کرتے ہیں میں نے روح اللہ خان صاحب سے پوچھا کہ آپ کے شہر حضرو اور آپ کے علاقے چھچھ کا اب کیا حال ہے‘اب کیسے لوگ آباد ہیں؟ وہ کہنے لگے ’یہاں پر مختلف لوگ آباد ہیں ان میں پٹھان بھی ہیں کشمیری بھی ہیں‘ قریشی بھی ہیں اور بہت سے کام کرنے والے لوگ ہیں ویسے بھی حضرو ایک قدیم شہر ہے جس کی تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت ہے یہ ضرور ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بہت فرق پڑا ہے کاروبار بھی بڑھا ہے تعلیمی پسماندگی دور ہوئی ہے لوگ اپنے بچوں کی تعلیم میں دلچسپی لے رہے ہیں۔رضا علی عابدی اٹک اور خوشحال گڑھ کے درمیان دریائے سندھ کے کنارے ذرا اونچائی پر واقع ایک علاقے باغ نیلاب سے متعلق بتاتے ہیں کہ وہاں انہوں نے ایک شہری سجاد احمد صاحب سے پوچھا کہ یہاں کچھ پرانے زمانے کے آثار ہیں؟ کچھ پتہ چلتا ہے کہ فوجیں یہاں سے دریا پار کیا کرتی تھیں؟ انہوں نے کہا ’یہاں ایک قلعہ ہے جہاں سے مغلیہ دور میں فوجیں دریا پار کیا کرتی تھیں اس قلعے کے چاروں کونوں پر چوکیاں تھیں‘ اب بھی ان کے نشانات موجود ہیں وہ سامنے جو بڑے بڑے پتھر نظر آرہے ہیں‘ وہیں قلعہ بھی ہے“۔ میں نے سجاد احمد صاحب سے پوچھا کہ اور کیسے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت قدیم علاقہ ہے؟ کہنے لگے یہ جو قبرستان ہے‘اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت پرانا علاقہ ہے اب آپ کو جتنے بھی کھنڈر نظر آرہے ہیں یہ سب کے سب قبرستان ہیں اور سڑک کے ساتھ آپ جہاں بھی جائیں گے چھوٹے چھوٹے چبوترے دیکھیں گے یہ سب قبرستان ہیں گھوڑا مار تک یہ سب قبرستان ہیں۔میں نے پوچھا کہ گھوڑا مار کیا جگہ ہے؟ گھوڑا مار دریا سے تو تھوڑا دور ہے مگر کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں فوج نے وہاں سے گھوڑے دریا پاراتارے تھے۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ کسی بادشاہ نے گھوڑے کو ایک جست لگا کر دریا پار کرلیا تھا؟“ جی لوگ پشت درپشت کہتے آئے ہیں کہ یہاں ایک جست لگا کر دریا پار کیاگیا تھا‘سجاد احمد کی باتیں تمام ہوئیں میں سوچنے لگا کہ کیسا تاریخی علاقہ تھا‘اب کھنڈر ہوگیا ہے بالآخر میری ٹیکسی ریلوے سٹیشن پہنچی پلیٹ فارم پر دودھ اور پتی کی چائے پیتے پیتے انتظار کے لمحے ختم ہوئے اور دور سے بھاری بھر کم ریل کار آتی نظر آئی مجھے ماڑی انڈس جانا تھا۔چلاس کبھی پسماندہ رہا ہوگا اب شاہراہ قراقرم کے فیض بٹور کر ترقی کر چکا تھا لوگ خوش تھے ان کے علاقے میں بڑے بڑے ہوٹل کھل گئے تھے ٹریفک چل رہا تھا اور کاروبار چمک رہا تھا ساری آبادی بی بی سی سنتی تھی ہر شخص مجھے جانتا تھا یہاں اونچے پہاڑوں کے علاقے میں اپنے اجنبی ہونے کا احساس جاتا رہا میں نے اپنے پروگرام کے لئے بہت سے انٹرویوریکارڈ کئے اور ان سے بھی زیادہ محبت سمیٹی مگر جو انٹرویو مجھے یاد رہے گا وہ ڈاکٹر یاسمین ممتاز کا تھا اصل میں تو وہ علاقے کے ڈپٹی کمشنر کی اہلیہ تھیں مگر کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں تعلیم پاچکی تھیں اس علاقے میں آئیں تو دیکھا کہ پردہ دار اور باحیات خواتین کو مرجانا منظور ہے مگر مرد ڈاکٹر سے علاج کرانا گوارہ نہیں اوپر سے غضب یہ کہ سردی کی وجہ سے بیمار رہتی ہیں اور گھر گرہستی کی ذمہ داریاں اٹھاتے اٹھاتے ان کے پھیپھڑے چھلنی ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر یاسمین ممتاز نے ان کا علاج شروع کیا تو مریض خواتین کی قطار یں لگ گئیں میں نے کسی ڈاکٹر کو خلق خدا کی اتنی خدمت کرتے ابھی تک نہیں دیکھا تھا انہوں نے علاقے کی عورتوں کے بارے میں آنکھیں کھول دینے والی تفصیلات بتائیں چلاس سے آگے چلے تو کوہستان کا علاقہ آگیا پہاڑ تو ویسے ہی تھے دریا بھی ویسا ہی تھا البتہ لوگوں کی آنکھوں میں چھپی ایک وحشت سی تھی۔