ہوائی سفر۔۔۔۔۔

بانو قدسیہ کی والدہ جو میری ساس تھیں وہ لمبے لمبے دوروں پر جایا کرتی تھیں وہ اپنے ساتھ ”کروشیا“ ضرور رکھتی تھیں (شاید ہمارے ان بچوں کو کروشیئے کا پتہ نہ ہو) وہ سفر میں اپنے کروشیئے کے ساتھ کھٹا کھٹ بنتی جاتی تھیں اور جب دورے سے لوٹ کر آتی تھیں تو ان کے پاس کچھ نہ کچھ بنا ہو اور مکمل ہوا ہوتا تھا‘جب کبھی ولائیت کی خواتین آتی تھیں تو انہیں دیکھ کر بہت حیران ہوتی تھیں ایک دفعہ ہم اسلام آباد جارہے تھے تو انہوں نے اپنا کروشیا نکال لیا اور کچھ بننے لگیں۔ ان کیساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں‘وہ انہیں بڑے غور سے دیکھنے لگیں (ان دنوں فوکر کا زمانہ تھا) وہ خاتون کہنے لگیں کہ آپ نے تو بڑے کمال کا ڈیزائن بنایا ہے۔ یہ بہت خوبصورت ہے وہ گلاس کے نیچے رکھنے والی کوئی چیز تھی۔ میری ساس اس خاتون کو کہنے لگی کہ یہ اب مکمل ہوگیا اور یہ اب تمہارا ہوا۔ اس نے بڑی مہربانی اور شکریے سے وصول کیا‘جب میری ساس صاحبہ اس طرح کی کوئی دوسری چیز بنانے لگیں تو اس خاتون نے کہا کہ یہ تو میں حیدر کو دے دوں گی اور میں چاہتی ہوں کہ اس جیسا ایک اور میرے پاس بھی ہو میری ساس کہنے لگی کہ وقت تھوڑا ہے اور یہ بن نہیں پائے گا آپ مجھے اپنا ایڈریس دے دیں میں پہنچا دوں گی لیکن انہوں نے بنانا شروع کر دیا جب ہم پنڈی پہنچے تو اناؤنسمنٹ ہوئی کہ بہت دھند ہے جس کی وجہ سے لینڈنگ ممکن نہیں ہے لہٰذا اس جہاز کو پشاور لے جایا جارہا ہے‘اس سے میری ساس بڑی خوش ہوئی کہ اسے مزید وقت مل گیا ہے جب پشاور لینڈ کرنے لگے تو پائلٹ کی آواز آئی کہ ہم یہاں لینڈ کرنے آئے تھے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اب یہاں کا موسم بھی پنڈی جیسا ہوگیا ہے لہٰذا ہمیں واپس پنڈی ہی جانا ہوگا کیونکہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ وہاں کا موسم ٹھیک ہوگیا ہے جب ہم پنڈی آئے تو وہ چیز تھوڑی سی رہ گئی اور مکمل نہیں ہوئی تھی  پائلٹ کی آواز پھر گونجی کہ ہم لینڈنگ کرنے والے ہیں لیکن ایک دو چکر اور لگائیں گے تاکہ رن وے کا درست اندازہ ہوسکے جب وہ چیز مکمل بن چکی اور دو چکر بھی مکمل ہوگئے تو جہاز میں موجود ایک فوجی نے تالی بجائی اور میری ساس کو مخاطب کرتے ہوئے بولا کہ ”بیگم صاحبہ اب لینڈ کرنے کی کیا اجازت ہے۔“ میری ساس نے کہا کہ ہاں اب ہے کیونکہ یہ بن چکا ہے۔ایک دفعہ ہم بیٹھے تھے‘میرا کزن جو میرا ہم عمر ہی ہے‘ اس کا نام اکرام ہے‘ وہ اپنے پہلے بچے کی پیدائش کا ذکر کررہاتھا‘وہ پتوکی میں بڑے زمیندار ہیں‘ وہاں انکی زمینیں ہیں‘وہ بتانے لگے کہ جب ان کے بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو تب شام یا رات کا وقت تھا اور وہ تھوڑے پریشان ہوئے‘میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گاڑی نکالیں ہمیں لاہور جانا چاہئے اور آدھی رات کو لاہور پہنچ گئے‘ہم سب گھر کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے‘ وہاں میری چھوٹی بہن بھی موجود تھی‘ تو میں فوراً ریحانہ (بیوی)کو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا کر پیچھے لٹا دیتا اور خود گاڑی چلانے لگ جاتا‘اس سے یہ پتہ چلا کہ اس نے ساری رات ڈرائیونگ بھی اپنی بیوی ہی سے کرائی ہے اور خود مزے سے لیٹے رہے ہیں‘آپ نے گھروں میں اپنے بھائی‘ بڑوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ کسی کام میں دخل نہیں دیتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید دخل نہ دینے سے کچھ فائدہ پہنچتا ہے‘ حالانکہ اس سے ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں پہنچتا‘حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی تاجر اور دکاندار ہیں ان کو سوائے اپنی ذات کے اور اپنی زندگی کے اور کسی چیز سے کوئی تعلق یا سروکار نہیں‘مزے سے تجارت کررہے ہیں‘ ان کی چھوٹی سی دنیا ہے اور وہ اسی تجارت کے اندر گھومن گھیری انداز سے چکر کاٹ رہے ہیں۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)