معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں بڑی بڑی باتیں تو سب ہی کو یاد رہتی ہیں مجھے ان چھوٹی باتوں سے والہانہ لگاؤ ہے جو نہ صرف یاد رہتی ہیں بلکہ یاد آکر خوشیاں بھی دیتی ہیں‘ہماری گاڑی خانیوال پہنچ گئی کیسا جیتا جاگتا سٹیشن تھا‘ شہرکے لڑکے بن سنور کے آئے تھے اور زنانہ ڈبوں کے سامنے شوخیاں کررہے تھے مگر مجھے وہ چھوٹا لڑکا خوب یاد ہے جس نے میرے کان کے قریب آکر چائے کی آواز لگائی‘ میں نے کہا میرے لئے چائے لے آؤ وہ خوش ہوکر چائے لینے دوڑا‘ یہ توکوئی بڑی بات نہیں دوڑتے دوڑتے اس نے کہا شکریہ۔ اتنے چھوٹے سے شہر کے چھوٹے سے لڑکے کی زبانی ایسا سچا کھنکتا ہوا لفظ سنا تو جی جھوم اٹھا‘ اتنے میں ایک درویش صفت بزرگ آگئے جن کے ہاتھوں میں جوتے پالش کرنے کا سازو سامان تھا بہت غریب تھے مگر تنگدستی کی شکایت نہیں کی پولیس والوں کے جوتے پالش کرکے ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے محفوظ رہتے تھے‘میری جیب میں ایک ایک دو دو روپے کے کچھ نوٹ تھے جو میں نے انہیں دے دیئے‘ لے کر چلے تو گئے لیکن کچھ دیر بعد دیکھا کہ واپس چلے آرہے ہیں آکر میرے دیئے ہوئے نوٹ میرے ہاتھ پر رکھ دیئے‘بولے ’صرف عزت والا کام کرتا ہوں یہ نہیں کہ کوئی غلط کام کروں میں نے ان سے جوتوں پر پالش نہیں کرائی تھی اور انہیں محنت کے بغیر خیرات لینا منظور نہ تھا‘ میری گاڑی سرکنے لگی میں کمسن چائے والے اور ضعیف عزت والے کو شکریہ بھی نہ کہہ پایا‘ خانیوال سے آگے میدان ہی میدا ن تھے نہ کوئی پہاڑی نہ کوئی ٹیلہ گاڑی جابجا نہروں کے اوپر سے گزرتی تیر کی طرح سیدھی چلی جارہی تھی‘ ملتان اور لاہور کے درمیان دو سو آٹھ میل لمبی یہ لائن 1864ء میں ڈالی گئی تھی اس وقت یہ کام آسان نہ تھا‘ ٹھیکیداراناڑی تھے مزدور نایاب تھے یہاں تک کہ پٹڑیوں کیساتھ ساتھ بچھانے کیلئے پتھر بھی دستیاب نہ تھے میں اس شام لاہور پہنچا تو میرے بی بی سی کے ساتھی شاہد ملک اور انکے کچھ دوست مجھے لینے آئے تھے اس وقت ان میں بحث ہورہی تھی کہ عابدی صاحب اونچے درجے میں بیٹھے ہوں گے یا نچلے درجے میں بہر حال وہ پلیٹ فارم پراس جگہ کھڑے میرا انتظار کررہے تھے جہاں اونچے درجے کے ڈبے لگتے ہیں‘اس شام انہیں مایوسی ہوئی۔ لاہور والے زندہ دلان پنجاب کہلاتے ہیں میں نے لاہور کو دیکھا تو ویسا ہی زندہ دل پایا زندگی کو ایسا جی کھول کر کس نے برتا ہوگا‘ جب دوسری بستیوں کا یہ حال ہے کہ دیکھ کر دل ڈوبا جائے‘لاہور ایسا جیتا جاگتا نگر ہے جو لاکھ اجڑا پھر بھی آباد ہے شام ہوئی ہے تو لوگ گھروں سے باہر آگئے ہیں اور وہ بھی سرشاری کے عالم میں‘ لوگ کھا رہے ہیں‘پی رہے ہیں‘باغوں کو جارہے ہیں‘یہی لاہور والے تو ہیں کہ ادھر بارش کا پہلا چھینٹا پڑا اور یہ تانگوں میں لدپھند کر شالا ماریا جہانگیر کے مقبرے یا باغ جناح کی طرف چل پڑے‘ساتھ میں کھانوں سے بھرے برتن ہیں آموں سے بھری پیٹیاں ہیں لوگ گارہے ہیں کھیل رہے ہیں‘کھانے پر چھینا جھپٹی کررہے ہیں اور جھولے جھول رہے ہیں اور لطف یہ کہ پوری بارش کا انتظار بھی نہیں کیا ایک ذرا سا چھینٹا پڑا اور آدھا لاہور گھروں سے سے باہر نکل کھڑا ہوا‘ کھانے پینے کا تو یہ حال ہے کہ میں رکشہ پر بیٹھ کر کہیں جارہا تھا معلوم ہوا کہ آگے مجمع کی وجہ سے سڑک بند ہے‘ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کڑھاؤ سے گرم جلیبیاں نکل رہی ہیں یا کھولتے ہوئے سموسے اتر رہے ہیں اور سامنے کھڑا ہوا مجمع کھانے میں منہمک ہے‘لاہور میں نہاری کی سو سے زیادہ دکانیں ہیں میرے ایک دوست مجھے اندر کہیں گلیوں کے ایک تنگ چائے خانے میں لے گئے وہاں بھی بڑا مجمع تھا معلوم ہوا کہ یہاں بہترین کشمیری چائے ملتی ہے باغوں میں جانے کی جیسی روایت لاہور میں ہے اور کہیں نہیں‘حسن اتفاق سے ادھر اس علاقے کو کچھ ایسے حکام مل گئے جنہوں نے شہر میں بڑے بڑے باغ لگادیئے ماڈل ٹاؤن کے درمیان جو بہت بڑی زمین خالی پڑی تھی اس میں دائرہ نما پارک بن گیا ہے ملک میں گھوڑدوڑبند ہوگئی تو لاہور والوں نے لق ودق ریس کورس گراؤنڈ کو با غ بنادیا لارنس گارڈن تو پہلے سے تھا مگر اسے باغ جناح کا نام دینے کے بعد صحیح معنوں میں گل وگلزار بنادیا گیا‘ احمد ندیم قاسمی مجھے بڑے چاؤ سے ان باغوں کے بارے میں بتارہے تھے کہنے لگے کہ ایک شام میں ریس کو ریس کے باغ کی طرف سے گزرا تو اندر کا راستہ نہیں ملا‘اتنا مجمع تھا کہنے لگے کہ گرمیوں میں لوگوں کا باغوں میں آنا تعجب کی بات نہیں لاہور میں لوگ شدید سردیوں میں بھی اوڑھ لپیٹ کرپارکوں میں آتے ہیں کیسا ہی موسم ہو‘وہ ضرور آئیں گے‘گھومیں گے‘ دیکھیں گے‘گپیں ماریں گے اور پھر چلے جائیں گے۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)