معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ماریشس کے جزیرے پر قبضے اور انگریزوں کی جنگی حکمت عملی کا تاریخی حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ماریشس میں ایک روز میرے میزبان مجھے جنوب مشرقی ساحل پر اس جگہ لے گئے جہاں فرانس والوں کو یقین تھا کہ انگریز حملہ کریں گے نیچے ساحل سے لے کر پشت پر واقع پہاڑی کی چوٹی تک اتنے مضبوط اور مستحکم دمدمے اور مورچے بنوائے گئے تھے کہ 1810ء سے آج تک ان کا ایک پتھر بھی اپنی جگہ سے نہیں سرکا۔کسی نے کہا۔ یہ دیکھئے غلاموں نے یہ فصیلیں بناتے ہوئے خون پسینہ ایک کیا ہے‘ہوتا یہ تھا کہ ہندوستان اور چین جانے کیلئے انگریزوں کے سمندری جہاز راس امید کا چکر کاٹ کر ادھر سے گزرتے تھے یہاں فرانس والے انہیں لوٹتے تھے اور گھر بیٹھے آرام سے کھاتے تھے البتہ جانتے تھے انگریز ایک روز پلٹ کر وار ضرور کرینگے اسی دوران انگریزوں کے جنگی جہازوں نے ماریشس کے جنوب مشرقی ساحل کی طرف نقل وحرکت شروع کی فرانسیسیوں نے جھٹ غلاموں کو مورچے بنانے پر لگادیا آخر ایک روز برطانیہ کے چار جنگی جہاز آپہنچے زور کا معرکہ ہوا فرانسیسی توپ خانے نے ایسے آگ اگلی کہ انگریزوں کو ہار ماننا پڑی فرانس والے خوشی سے دیوانے ہوگئے اور پیرس کی محراب فتح پر نپولین کی عظیم فتوحات کیساتھ ساتھ انہوں نے ماریشس کے ساحل پر اپنی اس فتح کا احوال بھی کندہ کرادیا فرانس والوں کو جنوب مشرقی ساحل پر الجھا کر انگریز ایک روز آئے اور جزیرے کے شمالی ساحل پر اتر گئے انیسویں صدی کے ابھی دس سال ہی گزرے تھے اور ماہ نومبر ختم ہونے کو تھا اس روز انگریز کے لشکر کے ہمراہ سرزمین ہندوستان کے دو ہزار سات سو سپاہی بھی تھے یہ لوگ ماریشس کے ساحل پر اترے تو دور دور تک کوئی ان کی راہ روکنے والا بھی نہ تھا نہ کوئی گولی چلی‘ نہ کوئی گھائل ہوا پانچ دن بعد فرانسیسی گورنر نے ہتھیار ڈال دیئے ایک ہندوستانی فوجی کوحکم ہوا کہ پہاڑکی چوٹی پر چڑھ کر یونین جیک لہرائے اس وقت جزیرہ ماریشس کی آبادی کچھ یوں تھی سات ہزار گورے آباد کار‘ ساڑھے سات ہزار آزاد کردہ غلام‘ساٹھ ہزار غلام اور چھ ہزار ہندوستانی۔