رضا علی عابدی اپنے مخصوص انداز میں رقم طراز ہیں کہ ہماری جیپ جو علاقے کے چھوٹے سے قصبے میر پور ساکرو کی طرف دوڑ رہی تھی راہ میں ایک نہر کو پار کرنے لگی کہ اچانک میری نگاہ ایک بڑے سے بورڈ پر پڑی سڑک کے کنارے لگے ہوئے اس بورڈ پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا‘قصر ابوظبی‘جیپ تیزی سے آگے نکل گئی میں نے اپنے میزبانوں سے کہاقصر تو محل کو کہتے ہیں وہ بولے‘جی ہاں اس طرف محل ہے‘ابوظبی کے شیخ نے یہاں اپنی شکارگاہ اور اپنامحل بنوایا ہے اگلے ہی لمحے میرے اصرار پر جیپ رکی واپس لوٹی اور نہر کے کنارے کنارے بنی ہوئی اس کچی سڑک پر اتر گئی جو سڑک قصر ابوظبی کو جاتی ہے گرد کے بادل میں وہ نہر‘وہ درخت‘ سب نظر آنے بند ہوگئے کچھ دیگر بعد جیپ رکی گرد کے بادل منڈلاتے منڈلاتے اچانک بیٹھ گئے غبار کا چھٹنا تھا کہ سامنے کی شفاف چمکتی فضا میں دیکھا کہ انڈے جیسی ایک سفید عمارت کھڑی ہے بڑی سی گنبد جیسی چھت‘ اونچے اونچے در اور ستون بڑی بڑی کھڑکیاں‘ بڑے دروازوں تک جانے کے لئے بڑے بڑے زینے اور اطراف میں ہری گھاس کے تختے اور پھولوں کے پودے اور ہوا میں جھومتے‘دھوپ میں چاندی کی طرح چمکتے ناریل کے درخت‘ ٹھٹھہ کے ضلع میں ابوظبی کا محل دیکھا تو جی نہ مانا اور میں نے آگے بڑھ کر دربان سے اپنا تعارف کرایا وہ ریڈیو سنتا تھا‘ مجھے جانتا تھا محل دیکھنے کی میری خواہش کی خبر محل کی کنیزوں کے طرح دوڑی گئی باقی عملہ بھی نکل آیا اور اگلے ہی لمحے میں اپنے نئے میزبانوں میں گھرا محل کے شاہانہ زینوں پر چڑھ رہا تھا محل ان دنوں خالی پڑا تھا حقیقت یہ ہے کہ محل سال بھر خالی پڑا رہتا ہے خود ابوظبی کے شیخ دس برس میں شاید دو مرتبہ آکر وہاں صرف ایک ایک دن رہے تھے کبھی کبھار انکے گھر والے جاڑوں میں ایک دن کیلئے آجاتے ہیں‘ میں اندر داخل ہوا بہت بڑے بڑے کمرے بہت اونچی اونچی چھتیں‘نہایت عمدہ فرش‘ نہایت اعلیٰ فرنیچر اور ہر چیز اتنی صاف اور ستھری کہ ابوظبی کے شیخ اچانک آجائیں تو انہیں سب کچھ تیار ملے۔اس روز گرمی تھی ریفریجریٹر سے نکال کرہمیں ناریل کی ڈاب کا پانی پلایا گیا مگر اس سے زیادہ ٹھنڈک وہاں کے عملے کی خوش اخلاقی نے عطا کی۔ خوبصورت منظر کشی انتہائی مشکل کام ہے ایسی ہی ایک منظر کشی معروف صحافی رضا علی عابدی تیز ہوا میں لڑھکتے ٹین کے خالی ڈبے کی کہانی میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جاڑوں کی رات تھی اور جاڑے بھی لندن کے ایک توپت جھڑ اوپر سے رات کی تیز ہوائیں‘ سڑک کی پیلی پیلی روشنیاں دھندلائی ہوئی سی تھیں اور باہر سناٹا پڑا تھا ہوا کا شور تو کم تھا البتہ سوکھے پتے اڑنے کی آواز یوں آرہی تھی جیسے کوئی مجمع اپنی مرضی کیخلاف تالیاں بجا رہا ہو نہ کسی کے قدموں کی آواز تھی‘ نہ کتے بھونک رہے تھے اور وہ جو رات کے دوران اکا دکا کاریں گزر جاتی ہیں اس رات وہ بھی نہیں گزر رہی تھیں‘ اتنے میں کہیں سے ایک آواز آئی گلی کے ایک سرے سے ٹین کے ایک خالی ڈبے نے لڑھکنا شروع کیا‘ہوا تیز ہوتی تو وہ بھی تیزی سے لڑھکتا‘ ہوا سست پڑجاتی تو وہ بھی ذرا سا سرک کر رہ جاتا اس کی آواز سے یہی گمان ہوتا تھا کہ خالی ہے لیکن شاید اس کے اندر تھوڑا سا پانی وانی بھرا ہوا تھا کیونکہ اس کی آواز ذرا ذرا سی بوجھل تھی‘ کبھی ٹین کا ڈبا لڑھکنے کی آواز آتی‘ کبھی کبھی صرف پتے اڑنے کا شور ہوتا پھر ذرا دیر کیلئے ان دونوں کی آوازیں اکٹھی آتیں‘ایک بار آواز سے یوں لگا کہ ڈبا لڑھکتے لڑھکتے سوکھے پتوں کی کسی ڈھیری میں پھنس گیا ہے اک ذرا ذراسی آنیوالی آواز سے صاف لگتا تھا کہ وہ ڈھیری سے نکلنے کے جتن کررہا ہے پھر ایک تیز جھونکا آیا بہت سے پتے اڑے اور مجھے محسوس ہوا کہ ڈبے کو رہائی مل گئی ہے مگر پتوں کے شور کے باوجود صاف تھی اتنے میں باہر گلی میں تیز روشنی ہوئی جدھر سے ڈبا آرہا تھا ادھر سے ایک کار آئی سوکھے پتوں کو کچلتی ہوئی وہ میرے گھر کے سامنے سے گزر کر آگے بڑھ گئی پھر یوں لگا کہ گلی کے دوسرے کنارے پر وہ ایک لمحے کو رکی اور کہیں چلی گئی مگر اس کے بعد ایک عجیب بات ہوئی ٹین کے خالی ڈبے کے لڑھکنے کی آواز آنی بند ہوگئی اب سوچتا ہوں کہ کوئی مجھے وہ ڈبا دکھا دے۔کچلا ہوا سہی۔