اپنے بارے میں سچ بولنا۔۔۔۔

جب میں لکھنے لکھانے لگا اور میں چھوٹا سا ادیب بن رہا تھا یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے‘اس وقت ہمارے لاہور میں ایک کافی ہاؤس ہوتا تھا‘ وہاں بڑے سینئر ادیب رات گئے تک نشست کرتے تھے تو ہم بھی ان کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں سیکھتے تھے ان سے بات کرنے کا شعورحاصل کرتے تھے اور اپنے مسائل بھی ان سے بیان کرتے تھے اس زمانے میں راجندر سنگھ بیدی یہاں ڈاکخانہ میں کام کرتے تھے پریم چند بھی کافی ہاؤس میں آجاتے تھے اور اس طرح بہت بڑے لوگ وہاں آجاتے تھے میں رات دیر سے گھر آتا تھا‘میری ماں ہمیشہ میرے آنے پر ہی اٹھ کر چولہا جلاکر روٹی پکاتی تھی(اس زمانے میں گیس ویس تو ہوتی نہیں تھی) اور میں ماں سے ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ روٹی رکھ کر سوجایا کریں‘تو وہ کہتی تو رات کو دیر سے آتا ہے میں چاہتی ہوں کہ تجھے تازہ پکا کر روٹی دوں جیسا کہ ماؤں کی عادت ہوتی ہے میں ان سے اس بات پر بہت تنگ تھا اور میں نے ان سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر آپ اسی طرح رات دیر سے اٹھ کر روٹی پکاتی رہیں‘تو میں پھر کھانا ہی نہیں کھاؤں گا ایک دن یونہی رات دیر سے میرے آنے کے بعد ’پھلکا‘ (تازہ روٹی) پکاتے ہوئے انہوں نے مجھ سے پوچھا’کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا اماں‘ میں ادیب بن رہا ہوں کہنے لگیں‘وہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا‘اماں! لکھنے والا‘ لکھاری وہ پھرگویا ہوئیں تو پھر کیا کریگا؟ میں نے کہا میں کتابیں لکھا کروں گا وہ کہنے لگیں‘ اینیاں اگے پیاں جیہڑیاں کتاباں اونہاں دا کی بنے گا؟ میں نے کہا‘ نہیں! نہیں‘ میں اور طرح کا رائٹر بنوں گا اور میں سچ اور حق کیلئے لڑوں گا اور میں ایک سچی بات کرنیوالا بنوں گا۔میری ماں کچھ ڈر گئی بیچاری ان پڑھ عورت تھی گاؤں کی میں نے کہا میں سچ بولا کروں گا اور جس سے ملوں گا‘سچ کا پرچارکروں گا مجھے اچھی طرح یاد ہے اسی وقت ماں کے ہاتھ میں پکڑے چمٹے میں روٹی اور پتیلی(دیگچی) تھی اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی اگر تونے یہی بننا ہے جو تو کہتا ہے اور تونے سچ ہی بولنا ہے تو اپنے بارے میں سچ بولنا لوگوں کے بارے میں سچ بولنانہ شروع کردینا یہ میں آپ کو بالکل ان پڑھ عورت کی بات بتا رہا ہوں سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں بولا جائے‘جو دوسروں کے بارے میں بولتے ہیں‘ وہ سچ نہیں ہوتا ہماری یہ عادت بن چکی ہے اور ہمیں ایسے ہی بتایا‘سکھایا گیا ہے کہ ہم سچ کا پرچار کریں۔خواتین وحضرات! ہمارے اندر کا جو مخفی خزانہ ہے‘وہ بھی ہمت‘ جرات اور قربانی کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی خوبیاں باہر لانے کیلئے جہد کریں اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ دیں کچھ وقت کیلئے دنیا کے مصائب والم کو بھول جائیں اور بالکل مثبت انداز میں سوچنا شروع کردیں تو ہمارے خزانے باہر آنا شروع ہوجائیں اور ہمیں اپنی جس صلاحیت کا پتہ نہیں ہے‘ اس کا پتہ چلنے لگے‘اب آپ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ تیراک کون ہے کسی کو پانی میں دھکا نہ دے دیجئے گا یہ میں مثال کے طور پر کہہ رہا ہوں۔ ایک واقعہ میں سناتا ہوں کہ نہر‘دریا‘ کسی اور جگہ جہاں پانی کافی گہرائی میں تھا‘ایک بچہ پانی میں ڈوب گیا اب وہاں کافی لوگ جمع تھے لیکن کسی کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ اس بچے کو نکال لے اب یہ امید بھی دم توڑتی جارہی تھی کہ کوئی شخص پانی میں چھلانگ لگا کر اسے نکال لائے گا کہ ایک دم ایک شخص اس گہرے پانی میں کود گیا پہلے تو وہ خود ہاتھ پاؤں مارتا رہا پھر اس کے ہاتھ میں بچہ آگیا اور اس نے کمال بہادری اور جوانمردی سے اس معصوم بچے کو ڈوبنے سے بچالیا اسکے اس بڑے کام سے ہر طرف تالیاں بجیں‘ لوگ تعریفیں کرنے لگے اور اس سے پوچھنے لگے کہ ’اے بہادر نوجوان ہم سب میں سے کسی کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ گہرے پانی میں چھلانگ لگا کر اس بچے کو بچالیں لیکن تم کتنے عظیم شخص ہو کہ تم نے یہ کارنامہ سرانجام دیا‘یہ بتاؤ کہ ’جب سب ڈررہے تھے پانی میں کودنے سے تو تم میں ہمت کیسے آئی اس نوجوان کا ان سب سے پہلا سوال تھا پہلے مجھے بتاؤ مجھے پانی میں دھکا کس نے دیا تھا‘جب ہم بچے تھے تو جب دکان سے کوئی چیز لینے جاتے تھے تو دکاندار ہمیں خوش کرنے کیلئے ’جھونگا‘(کھانے کی کوئی تھوڑی سی چیز) دیا کرتے تھے اور بچے بھاگ بھاگ کر دکانوں سے گھر کیلئے سودا لینے کے لئے جاتے تھے‘ اب بھی شاید دکاندار دیتے ہوں لیکن میرا خیال ہے صورتحال کافی بدل چکی ہے خواتین وحضرات! میں نے آج آپ پر کچھ زیادہ ہی بوجھ ڈال دیا لیکن یہ مجھ پر کافی بوجھ تھا جو میں نے آپ پر ڈال کر کچھ کم کرنے کی کوشش کی ہے آخر میں اس امید‘ تمنا اور دعا کیساتھ اجازت چاہوں گا کہ آپ اپنی ذات کو ٹٹولیں گے اور اپنے اندر کے اندھے کنویں کو اپنی ہمت‘عزم اور دوسروں سے محبت اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے جذبے کیساتھ روشن کرنے کی کوشش کرینگے۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)