بولتی تصویر۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ گاؤں میں منادی ہوئی کہ ایک تصویر ہے جو بولتی بھی ہے ہم سب بے چین تھے کہ اسے دیکھیں اعلان کیاگیا کہ ریلوے سٹیشن کے قریب بڑے میدان میں وہ بولتی اور حرکت کرتی تصویریں دکھائی جائیں گی چنانچہ وہاں پر ایک بہت بڑا پروجیکٹر لگا دیاگیا وہ نہایت بھدی قسم کا تھا اس پر وہ ریل چڑھائی گئی اور ایک آپریٹر بڑے شہر سے منگوایا گیا اسکے پانچ چار اسسٹنٹ تھے وہاں سے دور ایک جنریٹر لگا کر اور اس کی تاریں پھینک کر بجلی کا بندوبست کیاگیا اور سامنے سکرین تانی گئی ہمارا سارا قصبہ‘عورتیں بچے بوڑھے ’منجیاں‘ چار پائیاں ڈال کر وہاں بیٹھے ہوئے تھے جب اس سکرین کے اوپر تصویر نظر آتی تھی تو وہ واقعی بولتی تھی اوراس تصویر کا نام تھا ’لیلیٰ مجنوں‘ ان حرکت کرتی تصویروں میں ایک لڑکی لیلیٰ تھی اور ایک لڑکا مجنوں تھا‘ جسے لوگ پتھر مار رہے تھے اور ہم حیرانی سے دیکھ رہے تھے اس کے بیچ میں گانے بھی آتے تھے وہ ریل (فلم کا فیتا) دس منٹ کے لئے چلتی تھی اور پھر اس کو بدلا جاتا تھا اور اسے بدلنے میں تقریباً آدھ گھنٹہ صرف ہوتا تھا‘سارے شائقین وناظرین پھر اپنے منہ سکرین کی بجائے پیچھے پڑے پروجیکٹر کی طرف کرلیتے تھے اور ریل بدلنے کے منظر کا بھی بڑا مزہ تھا آدھ گھنٹے کا یہ تماشا دیکھنا اور پھر دس منٹ کا سامنے سکرین پر تماشا دیکھنا اب اس میں آپ کو جو ضروری بات بتانے لگا ہوں‘ وہ یہ کہ وہاں سنسر شپ باقاعدہ طور پر توتھی نہیں لیکن ہمارے ذیلدار گرونام  صاحب انہوں نے سنسر کا بندوبست کیا تھا تاکہ  لوگوں کے اخلاق پر برا اثر نہ پڑے وہ پیتل کی ایک گاگر(گھڑا نما برتن) اور ہاکی لے کر وہاں کھلے میدان میں موجود تھے اور جب کوئی ایسا سین آتا تھاجس میں لیلیٰ مجنوں کے قریب ہوجاتی تھی اور گانا گانے لگتی تھی تو ذیلدار صاحب گاکر بجاتے تھے اور ان کے گاکر بجانے کی ڈناڈن ڈن ڈن ڈنر۔۔ کی آواز پورے مجمعے میں سنی جاتی تھی تو ہم سب آنکھیں بند کرلیتے تھے ان کا حکم تھا کہ یہ برا سین ہے اور اخلاق پر برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے لہٰذا آنکھیں بند کرلی جائیں‘خواتین وحضرات۔ ہم سب اپنی آنکھیں بند کرلیتے تھے کسی نے کبھی کانی آنکھ سے نہیں دیکھا کہ کیا سین چل رہا ہے وہاں حکومت کی طرف سے کوئی سنسر شپ نہیں تھی معاشرے نے خود ہی اپنے اوپر سنسر بٹھا یا ہوا تھا جب وہ دوبارہ گاکر بجنے کی آواز آتی تو سب آنکھیں کھول لیتے تھے۔ہمیں زندگی میں کبھی کبھی ایسا انسان ضرور مل جاتا ہے جس کو دیکھ کر حیرانی ضرور ہوتی ہے کہ یہ کیسا بادشاہ آدمی ہے؟ یہ مالی طور پر بھی کمزور ہے لیکن یہ خوش ہے‘ہمارے علاقہ ماڈل ٹاؤن میں ایک ڈاکیا ہے جو بڑا اچھا ہے اب تو شاید چلا گیا ہے اس کا نام اللہ دتہ ہے‘ اس جیسا خوش آدمی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا اس کا عشق ڈاک بانٹنا اور ہر حال میں خط پہنچانا ہے‘ چاہے رات کے نو بج جائیں وہ خط پہنچا کر ہی جاتا ہے‘ وہاں علاقے میں کرنل صاحب کا ایک کتا تھا اللہ دتہ کو پتہ نہ چلا اور ایک روز اچانک اس کتے نے اس کی ٹانگ پر کاٹ لیااور اس کی ایک بوٹی نکال لی‘خیر وہ ٹانگ پر رومال باندھ کر خون میں لت پت ڈاکخانے آگیا اسے دیکھ کر پوسٹ ماسٹر صاحب بڑے پریشان ہوئے اللہ دتہ نے انہیں ساری بات سے آگاہ کیا پوسٹ ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ کیا تم نے کچھ لگایا بھی کہ نہیں!وہ کہنے لگا نہیں جی بس بے چارہ پھیکا ہی کھا گیا میں نے وہاں کچھ لگایا تو نہیں تھا اب وہ ناداں سمجھ رہا تھا کہ آیا پوسٹ ماسٹر صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ٹانگ پر کتے کے کاٹنے سے پہلے کچھ لگایا ہوا تھا کہ نہیں‘ ہم اسے بعد میں ہسپتال لے کرگئے اور اسے ٹیکے ویکے لگوائے وہ بڑی دیر کی بات ہے لیکن وہ مجھے جب بھی یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ کتنا عجیب و غریب آدمی تھا جو گھبراتا ہی نہیں تھا اور ایسے آدمی پر کبھی خواہش گھیرا نہیں ڈال سکتی‘ انسان جب بھی خوش رہنے کے لئے سوچتا ہے تو وہ خوشی کے ساتھ دولت کو ضرور وابستہ کرتا ہے اور وہ امارت کو مسرت سمجھ رہا ہوتا ہے جب یہ باتیں ذہن کے پس منظر میں آتی ہیں تو پھر خوشی کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے ہم ایک بار ایک دفتر بنا رہے تھے اور مزدور کام میں لگے ہوئے تھے وہاں ایک شاید سلطان نام کا لڑکا تھا وہ بہت اچھا اور ذہین آدمی تھا اور میں متجسس آدمی ہوں اور میرا خیال تھا کہ کام ذرا زیادہ ٹھیک ٹھاک انداز میں ہو میں اس مزدور لڑکے کا کچھ گرویدہ تھا ہم دوسرے مزدوروں کو تیس روپے دیہاڑی دیتے تھے لیکن اسے چالیس روپے دیتے تھے وہ چپس کی اتنی اچھی رگڑائی کرتا تھا کہ چپس پر کہیں اونچ نیچ یا دھاری نظر نہیں آتی تھی (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)