بگرام ائیر بیس افغان فورسز کے حوالے کرنے کے بعد افغانستان میں امریکہ کے چھ سو پچاس فوجی رہ گئے ہیں جو گیارہ ستمبر تک مغربی سفارتخا نوں اور کابل ائر پورٹ کی سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیں گے اسکے علاوہ ترکی کے چھ سو فوجی بھی اسوقت افغانستان میں موجود ہیں چودہ جون کو برسلز میں صدر بائیڈن اور صدر اردوان کے مابین ہونیوالی میٹنگ کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ دونوں ممالک کے مابین پرانے تنازعات کے حل کی طرف خاطر خواہ پیش رفت ہوگی اس میٹنگ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسمیں دونوں ممالک کے صدور کے علاوہ انکے وزرائے خارجہ‘ وزرائے داخلہ اور نیشنل سکیورٹی ایڈ وائزرز نے بھی شرکت کی دونوں ممالک کے وفود کی میٹنگ سے پہلے صدر بائیڈن اور صدر اردوان نے علیحدہ ملاقات بھی کی جو پینتالیس منٹ تک جاری رہی مغربی میڈیا اس ملاقات کو کامیاب قرار دیتے ہوے کہہ رہا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین پائے جانیوالی رنجش اور بدگمانی دور ہو گئی ہے اور انکے تعلقات نے اب ایک مثبت رخ اختیار کر لیا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس نظر آ رہے ہیں اس ملاقات سے پہلے یہ توقع کی جا رہی تھی کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کے متعلق دونوں ممالک میں کوئی اتفاق رائے ہو جائیگا جس کے بعد جلد ہی ایک معاہدہ بھی طے پا جائیگا مگر ایسا ابھی تک نہیں ہوسکا لگتا ہے کہ طیب اردوان نے گزشتہ چار سالوں میں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کیساتھ جو تعلقات استوار کئے ہیں انہیں رول بیک کرنا انکے لئے خاصا مشکل ہے ترک صدر نے روس سے حال ہی میں S-400 جدید ایئر ڈیفنس سسٹم خریدا ہے اسکے بعد یورپی ممالک کہہ رہے ہیں کہ نیٹو کا ممبر ہونے کے باوجود ترکی کو روس سے اسلحہ نہیں خریدنا چاہئے تھا طیب اردوان نے پیوٹن سے اسلئے مراسم بڑھائے کہ سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا انکی پیوٹن اور اردوان دونوں سے دوستی تھی اسکے برعکس جو بائیڈن جمہوری حکومتوں کی حمایت‘ مطلق العنان حکمرانوں کی مخالفت اور انسانی حقوق کے فروغ کے ایجنڈے پر کاربند ہیں اسلئے ان کے لئے پیوٹن اور اردوان جیسے حکمرانوں سے سمجھوتہ کرنا مشکل ہے مغربی ممالک ان دونوں کو ایسے سخت گیر حکمران سمجھتے ہیں جنہوں نے اپنے مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور دوستوں کو سرکاری مراعات سے نوازا صدر بائیڈن نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے تقریباًدو ماہ بعد صدر اردوان سے فون پر رابطہ کیا اور اس بات چیت میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ سلطنت عثمانیہ کے آخری دنوں میں آرمینیا کے لوگوں کے قتل عام کو نسل کشی سمجھتا ہے باجود اس کے ترک صدر نے نیٹو سمٹ میں ملاقات کی حامی بھر لی۔صدر اردوان مغربی ممالک کو مزید اشتعال دلانے کی پالیسی سے اسلئے گریز کر رہے ہیں کہ انکے ملک کی اقتصادی حالت کمزور ہے اور انہیں مغربی ممالک کی طرف سے مالی امداد کی سخت ضرورت ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہ امداد روس مہیا نہیں کر سکتا مغربی لیڈروں کو اپنی دوستی کا یقین دلانے کیلئے انہوں نے یوکرین کی حکومت کی ایک ایسے وقت میں حمایت کی جب روس نے اپنی فوج اس کی سرحدوں پر جمع کی ہوئی تھی اسکا یہ مطلب نہیں کہ ترکی نیٹو اتحاد میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا انقرہ کی حکومت مغربی ممالک کیلئے کچھ ایسی خدمات سرانجام دے رہی ہے جس نے اسکی قدرو قیمت میں اضافہ کر دیا ہے ترکی نے گزشتہ کئی سالوں سے شام اور عراق سے یورپ جانے والے لاکھوں مہاجرین کو اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھی ہے شام اور عراق کی جنگیں کیونکہ مغربی ممالک کی برپا کی ہوئی ہیں اسلئے انکی تباہی کے بعد یہاں سے جانیں بچا کر نکلنے والے تباہ حال مہاجرین کو پناہ دینا انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے اس کام کے عوض اگر چہ کہ نیٹو ممالک ترکی کو خاصا معاوضہ دے رہے ہیں مگر ترکی نے یہ سہولت مہیا کر کے مغربی ممالک کا ایک بڑامسئلہ حل کر دیا ہے اسکے علاوہ ترکی نے بیس سال تک افغانستان میں نیٹو کو فوجی تعاون مہیا کر کے اپنی اہمیت منوا لی ہے۔طیب اردوان چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی اقتصادی حالت کو جلد از جلد بہتر بنا لیں کورونا وائرس کی وجہ سے ترکی کی ٹورسٹ انڈسٹری کو گذشتہ ڈیڑھ سال میں جو نقصان اٹھانا پڑاہے اسکے ازالے کیلئے انہیں مغربی ممالک کی امداد اور انکے سیاحوں کی ضرورت ہے امریکہ نے ترکی پر جو اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں طیب اردوان ان سے بھی چھٹکارا پانا چاہتے ہیں لیکن وہ امریکہ سے مسلسل کرد علیحدگی پسندوں کی حمایت بند کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں صدر بائیڈن نے کیونکہ برسلز کی میٹنگ میں ان مطالبات کو تسلیم نہیں کیا اسلئے دونوں ممالک کے تعلقات میں فی الحال کسی خوشگوار تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے طیب اردوان نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی مہیا کرنے کیلئے جو شرائط پیش کی ہیں ان میں نیٹو کی سیاسی‘ اقتصادی اور لاجسٹک سپورٹ شامل ہیں امریکی حکومت کے ایک وفد نے چند روز پہلے انقرہ میں ان مطالبات کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ترک حکام سے ملاقات بھی کی ترکی نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی سنبھالنے کے لئے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اسے دوسری اقوام کے ایک ہزار فوجی بھی مہیا کئے جائیں اس مقصد کے لئے ترکی نے ہنگری اور پاکستان سے رابطے کئے ہیں مگر اسے ابھی تک کہیں سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا طیب اردوان اپنے ملک کے افغانستان کیساتھ تاریخی روابط کی وجہ سے بھی نیٹو ممالک اور اشرف غنی حکومت کی مدد کرنا چاہتے ہیں مگر طالبان کی دشمنی مول لینے کے لئے انہوں نے جو شرائط پیش کی ہیں امریکہ ان پر سوچ بچار کر رہا ہے وقت گذر رہا ہے اور نیٹو ممالک کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے ترکی اگر کابل ائیر پورٹ کی سیکیورٹی کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا تو کابل میں یورپی ممالک کے سفارتخانے بھی کھلے نہیں رہ سکتے گیارہ ستمبر کی ڈیڈ لائن تک اگر یہ معاملات طے نہیں ہوتے تو کابل حکومت کے حالات مزید مخدوش ہو جا ئیں گے۔
اشتہار
مقبول خبریں
قانون بادشاہ ہے
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
از کجا می آید ایں آواز دوست
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
زیر عتاب کولمبیا یونیورسٹی
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
امریکی معاشرے کا اضطراب
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی