پیار محبت والے لوگ۔۔۔۔۔

 رضا علی عابدی اٹک اور خوشحال گڑھ کے درمیان دریائے سندھ کے کنارے ذرا اونچائی پر واقع ایک علاقے باغ نیلاب سے متعلق بتاتے ہیں کہ وہاں انہوں نے ایک شہری سجاد احمد صاحب سے پوچھا کہ یہاں کچھ پرانے زمانے کے آثار ہیں؟ کچھ پتہ چلتا ہے کہ فوجیں یہاں سے دریا پار کیا کرتی تھیں؟ انہوں نے کہا …… ’یہاں ایک قلعہ ہے جہاں سے مغلیہ دور میں فوجیں دریا پار کیا کرتی تھیں اس قلعے کے چاروں کونوں پر چوکیاں تھیں‘ اب بھی ان کے نشانات موجود ہیں وہ سامنے جو بڑے بڑے پتھر نظر آرہے ہیں‘ وہیں قلعہ بھی ہے“۔ میں نے سجاد احمد صاحب سے پوچھا کہ اور کیسے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت قدیم علاقہ ہے؟ کہنے لگے…… یہ جو قبرستان ہے‘اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت پرانا علاقہ ہے اب آپ کو جتنے بھی کھنڈر نظر آرہے ہیں یہ سب کے سب قبرستان ہیں اور سڑک کے ساتھ آپ جہاں بھی جائیں گے چھوٹے چھوٹے چبوترے دیکھیں گے یہ سب قبرستان ہیں گھوڑا مار تک یہ سب قبرستان ہیں۔میں نے پوچھا کہ گھوڑا مار کیا جگہ ہے؟ گھوڑا مار دریا سے تو تھوڑا دور ہے مگر کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں فوج نے وہاں سے گھوڑے دریا پاراتارے تھے۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ کسی بادشاہ نے گھوڑے کو ایک جست لگا کر دریا پار کرلیا تھا؟“ جی لوگ پشت درپشت کہتے آئے ہیں کہ یہاں ایک جست لگا کر دریا پار کیاگیا تھا‘سجاد احمد کی باتیں تمام ہوئیں میں سوچنے لگا کہ کیسا تاریخی علاقہ تھا‘اب کھنڈر ہوگیا ہے جہاں محل کھڑے ہوں گے وہاں اب قبریں رہ گئی ہیں جو نشانیاں وقت گزرنے کے ساتھ مٹ جایا کرتی ہیں‘ وہ آج تک موجود ہیں اور عظمت رفتہ کی داستانیں سنارہی ہیں‘باغ نیلاب سے اب مجھے کالا باغ جانا تھا‘ خوب نام ہیں ان علاقوں کے‘ میری ٹیکسی جن پہاڑوں کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی‘ان کا نام کالا پہاڑ تھا دور چٹے پہاڑ بھی نظر آرہے تھے۔جھاڑیوں سے ڈھکے پہاڑی راستے پر بار بار مسافروں سے بھری ہوئی بسیں نظر آرہی تھیں پھر بستیاں نظر آنے لگیں ان کے اندر جدید قسم کے عمدہ‘ آرام دہ مکان‘کوٹھیاں اور بنگلے نظر آنے لگے‘ ترقی یہاں تک پہنچ گئی تھی بالآخر میری ٹیکسی ریلوے سٹیشن پہنچی پلیٹ فارم پر دودھ اور پتی کی چائے پیتے پیتے انتظار کے لمحے ختم ہوئے اور دور سے بھاری بھر کم ریل کار آتی نظر آئی مجھے ماڑی انڈس جانا تھا۔ایک اور مقام پر رقم طراز  ہیں کہ میں بشام سے چلنے لگا تو کسی نے کہا کہ مجتبیٰ صاحب سے ملے بغیر نہ جائیے گا۔ بشام کے بہت سے زمانے دیکھے ہیں اوربہت دنیا بھی دیکھی ہے انہوں نے۔ یہ سنا تو میں نے بھی مجتبیٰ صاحب کو دیکھنے کی ٹھانی اور انہیں ڈھونڈنا بھی بہت آسان نکلا۔ انکے گھر کی دہلیز عین شاہراہ ریشم پر ہے۔ جس سڑک نے یہ پورا علاقہ کھول دیا۔ ان کے مکان کا دروازہ اسی سڑک پر کھلتا ہے۔ محمد مجتبیٰ صاحب بہت خلیق‘ ملنسار اور پڑھے لکھے نکلے۔ اوپر سے مہم جو ایسے کہ دینی تعلیم پانے کیلئے ان پہاڑوں سے اترے اور دلی جا پہنچے اور پھر روزگار کی تلاش میں برما چلے گئے وہیں شادی کی اورسارے بچے وہیں پیدا ہوئے ……آخر جی نہ مانا اور تقریباً چالیس برس کی عمر میں بال بچوں سمیت یہیں پہاڑوں میں لوٹ آئے۔ میں نے محمد مجتبیٰ صاحب سے پوچھا کہ آپ جب پیدا ہوئے‘ ان دنوں یہاں بشام میں پیدائش کا کوئی رجسٹر ہوتا تھا؟ کچھ یاد ہے آپ کو‘ آپ کب پیدا ہوئے تھے؟ذہن پر زورڈالے بغیر فوراً بولے”1924ء میں“اور یہیں اسی بشام میں“ اسی بشام میں‘ آپ نے بزرگ یہاں کیا کرتے تھے؟ یہ کوئی ایسا زمیندارہ کاکام کرتے تھے۔ کھیتی مویشی کا‘ ایسا ہی کام کرتے تھے۔آپ بشام میں کتنی عمر تک رہے؟اس وقت والی سوات یہاں کا بادشاہ نہیں تھا ہر خاندان کے بڑوں کی حکمرانی تھی ان میں ایک خان ہوتا تھا۔ ہر شخص اس کی رائے سے کام کرتا تھا۔ جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے وہ بڑے اخلاق والے تھے اور مہمان نوازتھے۔ آپس میں کچھ بھی ہو لیکن باہر سے کوئی آدمی آتا تھا تو اس کی بڑی خاطر اور عزت کی جاتی تھی۔ میں نے کہا چلیے یہ لوگ آپس میں لڑتے تھے مگر کیا یہ صحیح ہے کہ انگریزوں کو انہوں نے اس علاقے میں قدم نہیں رکھنے دئیے اور سفید فام حکمرانوں کو اس طرف آنے کی اجازت نہیں تھی؟ وہ بولے جب انگریزوں کی بادشاہی تھی‘ اس وقت انگریز اس علاقے میں نہیں آتا تھا‘ انگریز کا نام سن کر اس علاقے والے متفق ہو جاتے تھے۔میں نے مجتبیٰ صاحب سے پوچھا یہ تو بتائیے کہ یہ جو اتنا بڑا دریا سندھ شہر بشام کے قدموں کو چھوتا ہوابہہ رہا ہے اس دریا سے اس شہرکو کبھی کوئی فائدہ بھی پہنچا؟ ان کا جواب کچھ یوں تھا۔ اس سے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ کہیں اوپر کوئی پہاڑ ٹوٹ کر دریا میں گرتا تھا تو اس سے دریا بند ہو جاتا تھا اوربڑی جھیل بن جاتی تھی۔ وہاں سے انگریزوں کے ہوائی جہاز گرتے تو خبر ملتی کہ دریا بند ہو گیاہے۔ آپ لوگ جو دریا کے کنارے بستے ہیں‘ جان ومال سے ہوشیار رہیں۔ ایک مرتبہ تو دریا میں اتنا شدید سیلاب آیا کہ یہ جگہ جہاں آپ بیٹھے ہیں‘یہاں بھی پانی تھا۔