چودھری غلام عباس صاحب شیخ عبداللہ کی جیل سے رہا ہو کر پاکستان پہنچے تھے کراچی آکر وہ ہمارے ہاں ٹھہرے اور ٹیلی فون پر قائداعظم کو اپنی آمد کی اطلاع دی قائداعظم نے انہیں اگلے روز لنچ پر مدعو کیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر انہیں سواری کی ضرورت ہو تو گورنر جنرل ہاؤس کی کار انہیں لینے وقت پر آجائے گی چودھری صاحب ہمارے ہاں کار کھڑی دیکھ چکے تھے‘اس لئے انہوں نے عرض کیا کہ سواری کا انتظام ہے اور وہ خود ہی حاضر ہوجائینگے سواری کا جو انتظام موجود تھا اس کی اصلیت سے ہم نے چودھری صاحب کو آگاہ کیا تو وہ بولے ’کوئی پرواہ نہیں ہم ایک گھنٹہ پہلے ہی گھر سے روانہ ہوجائیں گے‘تاکہ کار کے سارے ناز نخرے اٹھانے کے بعد بھی کافی وقت ہاتھ میں رہے‘لنچ کا ٹائم سوا بجے تھا ہم دھکا لگانے والی نفری کار میں بٹھا کر بارہ بجے ہی روانہ ہوگئے اتفاق سے کار کا موڈ ٹھیک رہا اور ہم ساڑھے بارہ بجے ہی گورنر جنرل ہاؤس پہنچ گئے اے ڈی سی بڑا پریشان ہوا کہ چودھری صاحب اتنی جلدی کیوں آگئے ہیں؟ چودھری صاحب نے اس کی ڈھارس بندھائی کہ وہ بڑی خوشی سے اے ڈی سی کے کمرے میں بیٹھ کر آدھ گھنٹہ انتظار کرلیں گے‘انتظار کی بات نہیں اے ڈی سی نے جواب دیا قائداعظم کا حکم ہے کہ جب چودھری صاحب تشریف لائیں تو وہ خود پورچ میں آکر کار کے دروازے پر ان کا استقبال کریں گے اس لئے فی الحال آپ واپس چلے جائیں اور ٹھیک ایک بج کر پندرہ منٹ پر پورچ میں پہنچ جائیں‘اس گفتگو کے دوران کار کا انجن بند ہوگیا تھا ہم نے دھکادے کر اسے سٹارٹ کیا اور باہر آکر گیٹ کے قریب ہی گورنر جنرل ہاؤس کی دیوار کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے رک گئے سکیورٹی والے بڑے مستعد تھے وہ فوراً ہماری طرف لپکے اور وہاں رکنے کی وجہ پوچھی ہم نے انہیں اصلی صورتحال سے آگاہ کیا‘تو وہ حیران ہوئے کہ قائداعظم کا معزز مہمان ایسی پھٹیچر کار پر سوارہوکر گورنر جنرل ہاؤس آیا ہے سکیورٹی سٹاف کے کچھ لوگوں نے آکر چودھری صاحب کے ساتھ عقیدتاً ہاتھ بھی ملائے‘وقت ہوچکا تھا سکیورٹی کے کچھ سپاہیوں نے بڑی خوشدلی سے کار کو دھکا لگایا اور ہم بڑے زور شور سے پھٹ پھٹ کرتے ٹھیک سوا بجے گورنر جنرل ہاؤس کی پورچ میں جارکے عین اسی لمحے قائداعظم بھی اندر سے برآمد ہوئے انہوں نے بڑی گرمجوشی سے چودھری صاحب کے ساتھ معانقہ کیا اور انہیں بازو سے تھام کر اندر لے گئے ہم نے احتیاطاً کارکا انجن چالو رکھا تھا۔جن دنوں پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو رہا تھا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کراچی چھوڑنے سے پہلے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر عمرہ ادا کر آؤں۔ اس مقصد کے لئے مجھے اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے کچھ رقم نکلوانے کی ضرورت تھی۔ اے جی پی آر کی ہدایت کے مطابق میں نے ایک فارم بھرا جس پر اپنے ہیڈ آف آفس کے دستخط کروانے بھی لازمی تھے دفتر والوں نے کہا کہ میرے ہیڈ آف آفس بھی صدرایوب بذات خود ہیں‘ اس لئے مجھے ان سے بھی دستخط کروانا ہوں گے۔ مجھے اس بات میں کسی قدر تردد تھا کہ اتنی چھوٹی سی بات پر ان کو کیا تکلیف دوں‘ لیکن ضابطے کی خانہ پری بھی ضروری تھی اس لئے وہ فارم ان کی خدمت میں دستخطوں کے لئے بھیج دیا‘ساتھ ہی پندرہ دن کی چھٹی کی درخواست بھی بھیج دی۔تھوڑی دیر کے بعد صدر ایوب ان کاغذات کو ہاتھ میں لئے میرے کمرے میں آئے اور میری ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے‘ مسکرا کر بولے ”پراویڈنٹ فنڈ تو ریٹائر ہونے کے بعد کام میں لایا جاتا ہے۔ تم ابھی سے اس میں سے یہ رقم کیوں نکلوا رہے ہو؟ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ عمرہ پر جانے کا ارادہ بتایا تو وہ کسی سوچ میں پڑ گئے ”اگر ارادہ تھا تو تنخواہ میں سے پیسہ بچا بچا کر رکھتے۔ پراویڈنٹ فنڈ میں سے کچھ نکلوانا دور اندیشی کی بات نہیں۔ میں خاموش رہا تو انہوں نے جیب سے اپنی ذاتی چیک بک نکالی اور فرمایا اس رقم کے برابر میں تمہیں اپنا ذاتی چیک دیتا ہوں۔ نصف رقم تم اپنی سہولت سے رفتہ رفتہ واپس ادا کر دینا‘ باقی نصف میرا تحفہ سمجھو۔ان کے اس الطاف کریمانہ سے میں بے حد متاثرہوا اور شکریہ ادا کرکے انتہائی لجاجت سے میں نے انہیں سمجھایا کہ عمرہ جیسے دینی سفر پر مجھے اپنے خرچ ہی سے جانا چاہئے یہ سن کر وہ زور سے ہنسے اوربولے ہر روز عیدنیست کہ حلوہ خورد کسے‘ اس کے بعد میرے فارم پر انہوں نے خندہ پیشانی سے دستخط کر دیئے۔ یہ معمولی سا واقعہ مالی‘ اقتصادی اور معاشی زاویوں سے صدر ایوب کے ذہنی رجحانات اور ذاتی کردار پر نہایت دلچسپ روشنی ڈالتا ہے۔(شہاب نامہ سے اقتباس)