گھر کی چابی۔۔۔۔

ہم اپنی والدہ کو ”پھرنتو“ کہتے تھے‘ وہ آزاد منش خاتون تھیں اور عموماً اپنے کمرے میں نہیں رہتی تھیں بس ادھر ادھر پھرتی رہتی تھیں‘ اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں‘ جب بھی دیکھیں کمرے کا چکر لگا کے باورچی خانے میں پہنچی ہوتیں‘ انہیں جہاں بھی چھوڑ کر آتے تھوڑی دیر کے بعد وہ کچن میں ”کڑھم“ کرکے موجود ہوتیں۔ ایک بار دوپہر کے وقت وہ باورچی خانے میں کھڑی تھیں اور سب سوئے ہوئے تھے‘ میں نے پوچھا جی کیا کر رہی ہیں تو وہ کہنے لگیں کہ بندر والا مداری آیا تھا وہ بھوکا تھا اس کیلئے پکوڑے تل رہی ہوں کچن میری اماں کا سارا سینٹر ہے‘اس زمانے کی شاید ساری عورتیں اس نظریئے کی قائل تھیں‘ اگرآپ اپنی زندگی کو بھی غور سے دیکھیں اور چھوٹی چمٹی کے ساتھ زندگی کے واقعات چنتے رہیں تو آپ کو بے شمار چیزیں ایسی نظر آئیں گی جو ایسے ہی آپ کی نگاہ سے اوجھل ہوگئی ہیں لیکن وہ بڑی قیمتی چیزیں ہیں‘خیر اگلی میں میرا ایک چھوٹا سا گھر تھا‘اس کے دو کمرے تھے‘ ہم کبھی کبھی وہاں جاتے تھے‘جب کبھی وہاں جاتے تو آتے وقت اس کی دیکھ بھال غلام قادر کو سونپ دیتے‘وہ وہاں ڈاکخانے میں ملازم بھی تھا۔ میری بیوی نے چابیاں دیتے ہوئے اسے کہا کہ ”غلام قادر سردیاں آنے سے پہلے یا سردیاں آنے کے بعد چیزیں گھر سے باہر نکال کر انہیں دھوپ لگا لینا۔“ اس نے کہا کہ ”بہت اچھاجی۔“ غلام قادر نے وہ چابی لے کر ایک دوسری چابی بانو قدسیہ کو دے دی تو اس نے کہا یہ کیا ہے۔وہ کہنے لگاکہ جی یہ میرے گھر کی چابی ہے جب آپ نے اپنے گھر کی چابی مجھے دی ہے تو میرا فرض بنتا ہے کہ میں اپنے گھر کی چابی آپ کو دے دوں۔کوئی فرق نہ رہے‘ آپ مجھ پر اعتماد کریں اور میں نہ کروں یہ کیسے ممکن ہے۔ میری بیوی اس کی بات سن کر حیران رہ گئی۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ اب ہمارا کرکٹ کا موسم ہے‘ جو کہ ہمیشہ ہی رہتا ہے‘ اس پر آپ بھی غور کریں میں اتنا اچھا Watcher نہیں ہوں‘ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر بیٹسمین اپنے مضبوط ہاتھ اور مضبوط کندھوں اور پر استقلال جمائے ہوئے قدموں اپنے سارے وجود کی طاقت کے ساتھ ہٹ نہیں لگاتا‘بلکہ اس کے سرکی ایک چھوٹی سی جنبش ہوتی ہے‘جو نظر بھی نہیں آتی۔ اس جنبش کے نہ آنے تک نہ چوکا لگتاہے نہ چھکا۔ لگتا ہے جب وہ بیلنس میں آتی ہے۔ تب شارٹ لگتی ہے۔ سرکس کی خاتون جب تار پر چلتی ہے وہ بیلنس سے یہ سب کچھ کرتی ہے۔ میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں‘ مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا‘ کیونکہ ہماری بتی تو سبز تھی‘ لیکن دوسری طرف سے آنے والے ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہہ رہے تھے کہ کر لو جو کرنا ہے‘ ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے۔یہ سوچ خطرناک ہے‘ بظاہر کچھ باتیں چھوٹی ہوتی ہیں‘ لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں‘ میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں‘ کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے۔ اس نے کہا کہ سر مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو‘ البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اورکتنا ملا‘ میں نے کہا کتنا کہنے لگاآٹھ آنے‘ میں نے کہا وہ کیسے کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی‘ میں لاہور میں نسبت روڈ پرکھڑا تھا‘ بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی‘ لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی‘ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی‘ اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹڑی پر چلی گئیں اور مجھے اٹھنی دے دی۔ ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں‘ مسکرانا سیکھنا چاہئے اور اپنی زندگی کو اتنا”چیڑا“(سخت) نہ بنالیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ڈسپلن کے راز کو پالیں گے اور خود کو ڈھیلا چھوڑیں گے اور ریلیکس رکھیں گے۔میں اپنے یوٹیلیٹی بلز پر دباؤ ڈالتا ہوں اور ان پر کڑھتا ہوں۔ میرا اس میں کوئی قصور نہیں، یوٹیلیٹی بل بھیجنے والوں کا بھی کوئی قصور نہیں۔ قصور میری خواہشات کا ہے، میری خواہشات کا دائرہ اتنی دور پھیل گیا ہے اور وہ میرے اختیار میں بالکل نہیں رہا۔ میں کتنی بھی کوشش کیوں نہ کرلوں، میں اس دائرے کے اندر نہیں آسکتا۔ باربار مجھے یہ کہاجارہاہے کہ یہ بھی تمہارے استعمال کی چیز ہے، وہ بھی تمہارے استعمال کی چیز ہے اور جب تک تم اسے استعمال میں نہیں لاؤگے، اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا۔1948ء میں ہم نے ایک فریج خریدا، کیونکہ میری بیوی کہتی تھی کہ فریج ضرور لینا یہ دنیا کی سب سے قیمتی اور اعلیٰ درجے کی چیز ہے۔ ہمارے خاندان میں کسی کے پاس فریج نہیں تھا، وہ ہمارے گھر سالم تانگے کروا کر فریج د یکھنے آتے تھے کہ سبحان اللہ کیا کمال کی چیز ہے، میری بیوی انہیں دکھاتی تھی کہ دیکھو ڈھکنا کھلا ہے اور اس میں ساری چیزیں پڑی ہیں اور ان پر روشنی پڑرہی ہے، ساری چیخیں مارتی تھیں کہ آپا جی بتی جلتی رہے گی۔ تو وہ کہتی ”ہے ہے! جب دروازہ بندہوگا تو بتی خودبخود بجھ جائے گی۔اس میں یہ کمال ہے۔“ تو وہ ساری بیچاریاں دست بستہ ہوکر ڈرکے پیچھے ہوکر کھڑی ہوجاتیں، میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ فریج توآگیا ہے اس کے ساتھ اس کی ساری نگیٹو چیزیں بھی آئیں گی۔ اس نے کہا، نہیں یہ بڑی مفید چیز ہے۔اگلے روز عید تھی جب میں نماز عید پڑھ کے صوفی غلام مصطفی تبسم کے گھر کے آگے سے گزرا تو گھروں میں صفائی کرنے والی دو بیبیاں جارہی تھیں، میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ ایک نے دوسری سے پوچھا کہ اس بی بی نے تجھے کتنا گوشت دیا ہے تو اس نے کہا، دفع دور! اس نے ٹھنڈی الماری خریدلی ہے، سارا بکرا کاٹ کے اندر رکھ دیا ہے، کچھ بھی نہیں دیا۔ اب آپ لوگ میرا بندوبست کرو کہ میں کیسے اپنے آپ کو بچاؤں۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)