نیند کا خمار

سب ایجنٹ کی حیثیت سے مجھے ہر دوسرے ماہ دس بارہ دن کیلئے ساورا ایجنسی کا دورہ کرنا پڑتا تھا ان دوروں پر ہم بچوں کے لئے رنگ برنگی میٹھی گولیاں‘عورتوں کیلئے کانچ کی چوڑیاں‘ منکوں کے ہار‘ پیتل اور تانبے کی بالیاں اور مردوں کے لئے چاقو‘چھریاں اور ربڑ کے چپل تحفے کے طور پر بانٹنے کے لئے اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے ایجنسی میں سرکاری نرخ پر سالم بکرے کی قیمت دوروپے تھی ایک روپے میں آٹھ مرغیاں آجاتی تھیں اور چار آنے میں پچاس انڈے مل جاتے تھے ساورا قبیلے کو ہر بات میں حکومت کا دست نگر رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ انہیں روپے پیسے کی قدروقیمت سے ناآشنا رکھا جائے چنانچہ ان چیزوں کی تجارت قطعی طور پر ممنوع تھی اور کھانے پینے کی اشیاء کو ایجنسی سے باہر لانے پر کڑی پابندی تھی۔ساورا ایجنسی کے طول وعرض میں کوئی سڑک نہ تھی چھوٹے چھوٹے جنگلی راستے اور پہاڑی پگڈنڈیاں تھیں جن پر دورہ کرنے کے لئے مجھے ایک سرکاری ہاتھی ملا ہوا تھا یہ ہاتھی برس ہابرس سے اسی خدمت پر مامور تھا اور ہر نئے ایس ڈی او کے ساتھ وہ بڑی جلدی نہایت خوشگوار تعلقات استوار کرلیتاتھا مجھے دیکھتے ہی وہ اپنی سونڈ مستک پر رکھ کر سلام کرتا تھا اور پھر انعام کے طور پر کسی کھانے کی چیز کا انتظار کرنے لگتا تھا اگر کسی سلام کے بعد اسے اپنا متوقع انعام نہ ملے تو وہ روٹھ جاتا تھا اور اگلی بار سونڈماتھے پر رکھنے کی بجائے ایسے ہی بے اعتنائی سے پنڈولم کی طرح ہوا میں گھماتا رہتا تھا۔ہاتھی پر سوار ہونے کے لئے ہودج کے ساتھ بانس کی ایک چھوٹی سی سیڑھی لٹکتی رہتی تھی‘لیکن ہاتھی کی اپنی خواہش یہی ہوتی تھی کہ میں اس کی سونڈ کے ساتھ لپٹ جاؤں اور وہ مجھے گیند کی طرح اچھال کر اپنی گردن پر ڈال دے کبھی کبھی اس کی خوشنودی برقرار رکھنے کے لئے ایسا بھی کرنا پڑتا تھا لیکن ہاتھی پر سوار ہونے کا آسان ترین طریقہ یہ تھا کہ ایک آدمی اس کی دم کو بائیں طرف کھینچ کر پائیدان سا بنا لیتا تھا اور دوسرا اس پر قدم رکھ کر پیٹھ پر کود جاتاتھا۔ایک روز میں ہاتھی پر سوار ساور ا ایجنسی کے ایک گھنے جنگل سے گزر رہاتھا کہ سامنے ایک درخت کی شاخوں سے بڑا موٹا سانپ لٹکتا ہوا دکھائی دیا سانپ کو دیکھتے ہی ہاتھی نے سونڈاٹھاکر زور کی چیخ ماری اور پھر پیٹھ پھیر کر اس قدر بے تحاشا بھاگا کہ ہمارا ہودہ درختوں سے ٹکرا ٹکرا زمین پر گرنے کے قریب آ گیا۔ ہاتھی جب خوف اور غصے کی حالت میں بھاگ نہ رہا ہو تواسکے ہچکولوں میں روانی اور تناسب کا ایسا باقاعدہ تواتر ہوتا ہے کہ مجھے تو اس کی پیٹھ پر بیٹھتے ہی نیند کا خمار چڑھنے لگتا تھا۔ (شہاب نامہ سے اقتباس)