دیر کی بات ہے‘ میں اس وقت سیکنڈ ائیر میں پڑھتا تھااور پڑھتا تو میں یہاں لاہور میں تھا‘ لیکن میرا ایک قصبے کے ساتھ تعلق تھا‘ جہاں مجھے چھٹیوں میں لوٹ کر جانا پڑتاتھا‘ آنا پڑتا تھا‘ وہیں سے میں نے میٹرک کیا تھا‘ تو وہاں کے لوگ دیہاتی لوگ‘ کسان لوگ وہ ایک بابے کے عشق میں مبتلا تھے۔ اور وہ بابا ایسا تھا‘ جسے ان لوگو ں نے دیکھا نہیں تھا‘ لیکن وہ جان لیتے تھے‘ سن لیتے تھے نام کہیں سے خبر پہنچ جاتی تھی اور وہ اس کو بہت مانتے تھے‘اور اس تمنا اورآرزو میں بیٹھے رہتے تھے کہ وہ آئے گا۔ یہ بابا جو ہمارے دکھی دن ہیں‘ ان کو کسی طرح سے ہماری زندگیوں سے دور کردے گا اور ہمیں آسانیاں عطا ہونے لگیں گی لیکن وہ بے چارے اس کے بارے میں زیادہ کچھ جانتے نہیں تھے تو میں بہت حیران ہو کے ان سے کہتا تھا کہ تمہارا بابا کیسا ہے‘ جو تمہارے درمیان میں نہیں ہے اور تمہاری بولی نہیں بولتا اور تم اس کی بولی نہیں سمجھتے تو پھر کیسے تمہارا اور اس کا رابطہ ہو وہ کہتے تھے‘بھلے ہم اس کی بات نہ سمجھیں‘ وہ ہماری بات نہ جانیں لیکن دلوں کے اندر جو آرزوئیں پوشیدہ ہوتی ہیں جو تمنائیں ہوتی ہیں دل کی زبان ایک سانجھی زبان ہے جو ساری دنیا میں بولی جاتی ہے اس بابے کو وہ بابا قائداعظم کہہ کر پکارتے تھے اور اس کا نام لیکر وہ اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ میں کہتا تھا کہ ایسے بابے کو تم کس طرح سے اپنی زندگیوں میں داخل کروگے‘ ہم اس وقت تھوڑے سے متزلزل تھے‘ پڑھے لکھے نوجوان لڑکے تھے‘ کچھ دبدبے کاشکار تھے کہ کبھی آگے بڑھتے تھے‘ کبھی پیچھے ہٹتے تھے۔پھر ایک ایسا وقت آیا کہ انہی لوگوں نے لاہور کے اندر پنجاب یونیورسٹی کی سپورٹس گراؤنڈ میں جہاں اب ایک ہوائی جہاز کھڑا ہے‘ اپنے بابے قائداعظم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ اور کوئی ایک لاکھ کا مجمع‘ بالکل بے حس و حرکت خاموش بیٹھا ہوا جتنا بھی اس کا گھنٹے کا یا ڈیڑھ گھنٹے کا لیکچر ہوا اس میں اور یہ لوگ سارے کے سارے اس زبان سے واقف نہیں تھے‘ ایک بات اپنے اندرسموکے اپنے رگ و پے میں اتارکے وہاں سے اٹھے۔ باوجود اس کے کہ ان پر بہت مشکل وقت آیا ہوا تھا۔اس نے بڑی چومکھی لڑائی لڑکے برہمن کیخلاف‘ اور انگریز کیخلاف ایک ملک لے کر دیا اور جب ملک لے کر دے چکا تو پھر اس نے اپنا آپ اپنا سرمایہ اپنا ورثہ ان سے چھپا کر نہیں رکھا اور جب وہ یہاں سے جانے لگا‘ تو اس نے اپنی ساری جائیداد سب کچھ اپنی قوم کو دے دیا سب سے بڑا حصہ اس نے پشاور کے اسلامیہ کالج کو دیا حالانکہ وہ زیادہ وہاں گئے نہیں تھے لیکن ان کو پسند تھا۔ پھر ایک حصہ علی گڑھ یونیورسٹی کو دیا پھر سندھ مدرسہ کو دیا جہاں وہ تعلیم حاصل کرتے رہے تھے وہ سب کچھ جوان کی گاڑھے پسینے کی اپنی کمائی تھی‘ جو انہوں نے وکالت کرکے کمائی تھی یہاں سے کچھ نہیں لیا تھا وہ ساری کی ساری رقم اس کو دے کر یہاں سے رخصت ہو گیا اس لئے آپ کے دلوں میں ہم جو آپ سے بڑے ہیں تھوڑے سے عمر میں ہمارے دلوں میں ان کی قدر باقی ہے۔لاہور اور شیخوپورہ روڈ پر کئی ایک کارخانے ہیں ایک بار مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا جب میں وہاں کام کرکے فارغ ہونے کے بعد لوٹا او ر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا تو وہ سٹارٹ نہ ہوئی خیر میں نے ڈرائیور سے کہا کہ تم اپنی کوششیں جاری رکھو مجھے جلدی واپس جانا ہے لہٰذا میں بس میں چلا جاتا ہوں تم بعد میں آجانا‘جب میں بس میں بیٹھا تو وہاں اور سواریاں بھی تھیں ایک نیند میں ڈوبا ہوا نوجوان بھی تھا جسکی گودی میں ایک خالی پنجرہ تھا جیسے کبوتر یا طوطے کا پنجرہ ہوتا ہے وہ نوجوان اس پنجرے پر دونوں ہاتھ رکھے اونگھ رہا تھا جب اس نے آنکھیں کھولیں تو میرے اندر کا تجسس جاگا اور میں نے اس سے بات کرنا چاہی میں نے اس سے کہا کہ یہ خالی پنجرہ تم گود میں رکھ کے بیٹھے ہو وہ کہنے لگا کہ سر یہ پنجرہ کبھی خالی ہوتا ہے اور کبھی کبھی بھرا ہوا بھی ہوتا ہے وہ کہنے لگا کہ اس میں میرا کبوتر ہوتا ہے جو اس وقت ڈیوٹی پر گیا ہوا ہے اس نے بتایا کہ وہ یہاں کھاد فیکٹری میں خرادیہ ہے اور ویلڈنگ کا کام بھی جانتا ہے اور چھوٹا موٹا الیکٹریشن کا کام بھی سمجھتا ہے اس نے کہا کہ مجھے ہر روز اوورٹائم لگانا پڑتا ہے اور میں پانچ بجے چھٹی کے وقت پھر گھر نہیں جاسکتا اور گھر پر فون ہے نہیں جس پر بتا سکوں کہ لیٹ آؤں گا لہٰذا میں نے اپنا یہ کبوتر پالا ہوا ہے اس کو میں ساتھ لے آتا ہوں جس دن میں نے اوورٹائم لگانا ہوتا ہے اس دن میں اور میرا کبوتر اکٹھے رہتے ہیں اور میری بیوی کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم آج رات گھر نہیں آئیں گے لیکن جس دن اوورٹائم نہیں لگانا ہوتا تو کبوتر چھوڑ دیتا ہوں وہ پھر پھڑاتا ہوا اڑتا ہے اور سیدھا میری بیوی کی جھولی میں جا پڑتا ہے اور وہ قاصد کا کام کرتا ہے اور اسے پتہ چل جاتا ہے کہ آج اس کے خاوند نے گھر آنا ہے اور وہ کھانے پینے کا اہتمام کردیتی ہے اور اس نے جو بھی مٹر قیمہ بنانا ہوتا ہے تیار کردیتی ہے اور آج بھی کبوتر اپنی ڈیوٹی پر ہے وہ کہنے لگا کہ صاحب میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں میری چھوٹی سی عقل ہے وہ میرا کبوتر گھر پہنچ چکا ہوگا خواتین وحضرات پہلے تو مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا کہ اس نے یہ بات سوچی کیسے؟وہ پنجرے والا کسی کے پیچھے نہیں گیا‘کسی کا محتاج نہیں‘کسی کی منت سماجت نہیں کی لیکن اس نے اپنی سوچ سے کبوتر کو پڑھایا‘سمجھایا اور قاصد کاکام لیا بڑی دیر کی بات ہے ہم سمن آباد میں رہتے تھے میرا پہلا بچہ جو نہایت ہی پیارا ہوتا ہے وہ میری گود میں تھا وہاں ایک گراؤنڈ ہے جہاں پاس ہی صوفی غلام مصطفی تبسم رہا کرتے تھے میں اس گراؤنڈ میں بیٹھا تھااورمالی لوگ کچھ کام کررہے تھے ایک مالی میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ ماشاء اللہ بہت پیارا بچہ ہے اللہ اس کی عمر دراز کرے وہ کہنے لگا کہ جی میرا چھوٹے سے جو بڑا بیٹا ہے وہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے وہ کہنے لگا کہ میرے آٹھ بچے ہیں جب اس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا تو میں کہا میں اپنی محبت آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیارنہیں ہوں وہ مسکرایا اور میری طرف چہرہ کرکے کہنے لگا صاحب جی محبت تقسیم نہیں کیا کرتے محبت کوضرب دیا کرتے ہیں وہ بالکل ان پڑھ آدمی تھا اور اس کی جب سے کہی ہوئی بات اب تک میرے دل میں ہے۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات