ماضی کے جھروکوں سے ۔۔۔۔

رضا علی عابدی جرنیلی سڑک کے سفرمیں کانپور کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں گاڑی کو اندھیرا ہونے سے پہلے پہلے کانپور پہنچ جاناتھا لیکن ابھی آدھی راہ کٹی تھی کہ رات آپہنچی اور وہ بھی اس شان سے کہ تمام ریلوے سٹیشنوں پر بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی‘ پلیٹ فارموں پر گھپ اندھیرا تھا اور مسافر چلا رہے تھے پانی کہاں ہے؟ نل کدھر ہے؟ ہر مرتبہ جواب میں گارڈ کی سیٹی سنائی دیتی‘خدا خدا کرکے روشنیاں نظرآئیں مگر روشنیاں ایسی جیسے دھوئیں میں گھول دی گئی ہوں اور اس میں کچھ گرد بھی ملا دی گئی ہو‘ یہی کانپور تھا ٹرین کھیتوں میں چلتے چلتے اچانک کارخانوں میں داخل ہوگئی ہرطرف فیکٹریاں ہی فیکٹریاں‘ پلانٹ ہی پلانٹ‘ چمنیاں ہی چمنیاں‘ اور ریلوے لائن کی دونوں طرف جھگیاں ہی جھگیاں‘ جھونپڑیاں ہی جھونپڑیاں‘اور خالی کھڑی ہوئی کئی ہزار سائیکل رکشا جنہیں صبح ہوتے ہی کرائے پر لے کر یہ سوکھی سوکھی ٹانگوں والے‘ دھنسی دھنسی آنکھوں والے محنت کش لاکھوں کی آبادی کے اس شہر کے ریلے میں کود پڑیں گے اور شہر بھی ایسا کہ اس کی ادھڑی ہوئی سڑکوں کا حال بیان کرنے کیلئے کتنا ہی زور خطابت صرف کردیا جائے سننے والوں کے ذہن میں تصویر نہیں بن سکتی‘ میں جو سٹیشن سے سائیکل رکشا پر بیٹھ کر چلا تو ذرا دیر بعد یہ حال تھا کہ ایڑی کی ہڈی اور گردن کی ہڈی میں تمیز نہ رہی‘ میں حیران تھا کہ اس کانپور میں جوابھی1780ء تک چھوٹا سا گاؤں کانپور تھا اتنی خلقت کہاں سے آگئی کہ شہر کے بخئے ادھڑے جارہے ہیں غالباً ہوا یہ کہ یہاں کپڑے‘ چمڑے اور اوزار سازی کی صنعت نے اتنا فروغ پایا کہ دوردور تک کی آبادی اٹھ کر یہاں آگئی‘ اب کانپور یوپی کا سب سے بڑا شہر اور شمالی ہندوستان کا جدید صنعتی مرکز ہے یہاں کی خاک میں خشک چمڑا اور ہوا میں سیاہ دھواں اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ مشہور ہے کہ اگر آپ گرمیوں میں کھلے آسمان کے نیچے سفید چادر بچھاکر سو جائیں تو صبح تک چادرکا صرف اتنا حصہ سفید رہتا ہے جس پر آپ لیٹے ہیں‘ باقی فضا کی کثافت سے کالا ہو جاتا ہے‘ ایک عجیب بات یہ ہے کہ جس شہر میں اتنی بھاری صنعت ہو وہاں چاہے پیسے کی ریل پیل نہ ہو مگر ظاہری خوش حالی تو ہو لیکن جیسی مفلسی اور تنگ دستی کانپور کے حصے میں آئی ہے اس سے خدا ہرنگر ہربستی کو محفوظ رکھے۔ اس طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ یہ انارکلی بازار دور تک سیدھا چلاگیا ہے وہی قدیم عمارتیں اوپر کی منزلوں میں وہی پرانے جھروکے‘ محرابی چھجے‘ سائبان‘ جھروکوں پر پڑی ہوئی چلمنیں‘ صدیوں سے سفیدی نہیں ہوئی‘ مرمت نہیں ہوئی اور پرانی دیواروں میں اگر کوئی تبدیلی نظر آتی ہے تو یہ کہ جاپانی ائرکنڈیشنر انہیں توڑتے ہوئے باہر تک نکل آئے ہیں‘ ایک طرف عورتوں کا بہت بڑا بازار ہے گلیاں اور انکے اندر گلیاں‘ سب خواتین کی‘ میں اندر چلاگیا ہرطرف اتنی زیادہ خواتین تھیں کہ ایک بار تو میں سہم کر رہ گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مردوں کو اندر آنیکی اجازت نہ ہو اور میں بھولے سے چلاآیا ہوں‘کچھ بھی ہو یہ انارکلی بازار ہے ویسے بھی نام کی مناسبت سے اس پر پہلا حق خواتین کا ہے لاہور کی کہانی یہاں کے علم و فضل کی بات کہے بغیر پوری نہیں ہوتی اور ایک پورے دور کی اس کہانی کے جیسے راوی عاشق حسین بٹالوی ہیں‘ بوڑھا راوی بھی نہیں ہو سکتا‘ شہر کی سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی زندگی کا عاشق حسین صاحب نے بہت قریب سے جائزہ لیا ہے اور خصوصاً لاہور کا وہ زمانہ دیکھا ہے جب علم و فضل اور ادب وثقافت کے آسمان پر لاہورستارا بن کر جگمگا رہا تھا‘ڈاکٹر عاشق حسن بٹالوی بھی اب بہت بزرگ ہیں مگر اپنا زمانہ انکے ذہن پر یوں نقش ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو اس روز وہ لاہور کے یادگار دنوں کی داستان کہہ رہے تھے‘ لاہور کے میں نے مختلف دور دیکھے ہیں لیکن علم اور ادب کی ترقی اور فروغ کے اعتبار سے سب سے زرخیز اور بھرپور دور جومیں نے لاہور میں دیکھا ہے وہ دوسری عالمگیر جنگ سے کوئی سات آٹھ سال پہلے کا دور ہے‘ لاہور کے اورینٹل کالج میں ڈاکٹر شیخ محمد اقبال‘ پروفیسر شیخ محمد شفیع‘ حافظ محمود شیرانی‘ گورنمنٹ کالج میں پطرس بخاری اور پھر اقبال خود اور اسکے علاوہ مولانا ظفر علی خان‘ ہندوؤں میں لاجپت رائے اور پھر ہندو شعراء کی تعداد بہت زیادہ تھی‘تلوک چند محروم‘ میلارام وفا‘ وسستا پرشاد فدا‘نانک چندناز‘ اودے سنگھ شائق‘ کرپال سنگھ بیدا‘ سوہن لال ساحر‘ بے شمار ہندو شعراء تھے۔ اردو لکھنے والوں میں کرشن چندر وغیرہ نئے پیدا ہور ہے تھے اپندرناتھ اشک‘ کنہیالال کپور وغیرہ یہ سب اردو لکھتے تھے‘ مولانا جورنجیب آبادی جو تھے تو نجیب آباد کے لیکن انکی ساری عمر لاہور میں گزری‘دیال سنگھ کالج میں پڑھاتے تھے وہ‘ تو انہوں نے لاہور میں ایک اردو مرکز قائم کیا اور اردو مرکز میں کام کرنے کے لئے انہوں نے یاس عظیم آبادی‘ جگرمراد آبادی اور اصغر گونڈوی جیسے شاعروں کو بلایا‘ اتفاق سے اسی زمانے میں سیماب اکبر آبادی اور ساغر نظامی بھی لاہور آگئے تو لاہور کا یہ حال ہوا جیسے بارات میں شہنائیاں بجنے لگی ہوں لاہور میں ہرطرف شعروشاعری کے چرچے شروع ہوگئے۔