یاد رہنے والے قصے۔۔۔۔

میں 1971ء کے انتخابات میں ایک جگہ پر ریٹرننگ آفیسر تھا ہم جلدی جلدی ووٹ ڈلوا رہے تھے وہاں ایک بابا آیا جس نے ریڑھی بنوائی ہوئی تھی وہ معذور تھا اور اس ریڑھی کے ذریعے حرکت کرتاتھا وہ آکے کہنے لگا کہ جی میں ”تلوار نوں ووٹ پانا اے“ میں نے کہ بابا جی بسم اللہ تو جہاں کہے گا مہر لگائیں گے لیکن رش زیادہ ہے تھوڑا انتظار کر لو لیکن اس نے کہا کہ نہیں جی میرے پاس ٹائم نہیں ہے وہاں میرے اسسٹنٹ کہنے لگے کہ جی اس کا ابھی ووٹ ڈلوادیں میں نے اس کی خوشنودی کے لئے کہا کہ بابا آپ کی ریڑھی بڑے کمال کی ہے یہ تو نے کہاں سے لی۔ کہنے لگا یہ میں نے خود بنائی ہے پہلے جو بنائی تھی اس کو میں نے بچوں والی سائیکل کے پہئے لگائے تھے وہ پکے پر خوب دوڑتی لیکن کچے میں وہ پھنس جاتی تھی۔ پھر میں نے لکڑی کے موٹے پہئے لگائے تو وہ کچے میں اچھے چلتے تھے اور پکے میں یا سڑک پر بہت شور مچاتے تھے پھر میں نے بیرنگ لگا دیئے بس ہر ہفتے مٹی کا تیل ڈال کر صاف کرنے پڑتے ہیں دیکھئے کہ وہ بابا چٹا ان پڑھ تھا میں نے اس سے کہا کہ بابا یہ تو نے کیسے بنائی وہ کہنے لگا کہ جی میں نے سوچ سوچ کے بنالی۔ میں نے جب اس سے بار بار پوچھا کہ کیا تو نے یہ خود ہی بغیر کسی کی مدد کے بنالی تو وہ بابا کہنے لگا اے دیکھو نہ جی اگربندہ پڑھیا لکھیا نہ ہووے تے فیر دماغ توں ای کم لینا پیندا اے نا۔“ایک کسان تھا اور اس کا بیٹا میرا واقف تھا وہ ایم بی بی ایس کا طالب علم تھا اور فائنل ائر میں تھا گاؤں میں اس کا باپ حقہ پی رہا تھا وہ کہنے لگا کہ اشفاق صاحب میرے بیٹے کو علم دیں جی میں نے کہا کہ کیوں کیا ہوا بہت اچھا علم حاصل کررہا ہے‘ وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ تو اشفاق صاحب کو بتا۔ وہ لڑکا کہنے لگا کہ جی میں ہارٹ سپیشلسٹ بننا چاہتا ہوں۔اس کا باپ پھر کہنے لگا کہ ”بے وقوف ایک بندے وچ اک دل ھوندا اے او ہندہ علاج کرکے انہوں ٹور دیں گا فیر کسے آؤنائیں تو دنداں دا علم پڑھ۔ بتی ہوندے نئیں کدے نہ کدے کوئی نہ کوئی تے خراب ہووے گا۔ ایس طرح بتی واری اک بندہ تیرے کو ل آئے گا۔“ کچھ خوش قسمت ملک ہیں‘جہاں لوگ اپنے مسائل اپنے طور پر یا خود ہی حل کر لیتے ہیں جو ان کے کرنے کے ہوتے ہیں میری ایک نواسی ہے اس نے ڈرائیونگ لائسنس کے لئے اپلائی کیا وہ ایک سکول سے دو تین ماہ ڈرائیونگ کی تعلیم بھی لیتی رہی لائسنس کے لئے ٹریفک پولیس والوں نے اس کا ٹیسٹ لیا‘لیکن وہ بیچاری فیل ہوگئی وہ بڑی پریشان ہوئی اور مجھ سے آکر لڑائی کی کہ نانا یہ کیسی گورنمنٹ ہے‘لائسنس نہیں دیتی‘ وہ خود میں خرابی تسلیم نہیں کرتی تھی بلکہ اسے سسٹم کی خرابی قرار دیتی تھی ایک ماہ بعد اس نے دوبارہ لائسنس کے لئے اپلائی کیا لیکن وہ ٹیسٹ میں پاس نہ ہوئی اور ٹریفک والوں نے کہا کہ بی بی آپ کو ابھی لائسنس نہیں مل سکتا‘ تو وہ رونے لگی‘شدت سے اور کہنے لگی تمہارا ہمارا خاندان کے ساتھ کوئی بیر چلا آرہا ہے اور چونکہ تمہاری ہمارے خاندان کے ساتھ لگتی نہیں ہے اس لئے ٹریفک والو تم مجھے لائسنس نہیں دیتے وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو آپ کے خاندان کو نہیں جانتے وہ کہنے لگی‘ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے اور میں اس ظلم پر احتجاج کروں گی اخبار میں بھی لکھوں گی کہ آپ لوگوں نے مجھے لائسنس دینے سے انکار کیا‘ایسا میری امی کے ساتھ اور ایسا ہی سلوک میری نانی کے ساتھ بھی کیا‘جو پرانی گریجویٹ تھیں اور اس طرح ہماری تین ’پیڑھیوں‘(نسلوں)کے ساتھ ظلم ہوتا چلا آرہا ہے جس سے آپ کا ہمارے ساتھ بیرواضح ہوتاہے‘وہ ابھی تک اپنے ذہن میں یہ بات لئے بیٹھی ہے کہ چونکہ ٹریفک پولیس والوں کی میرے خاندان کے ساتھ ناچاقی ہے اور وہ اس کو برا سمجھتے ہیں‘اس لئے ہمیں لائسنس نہیں دیتے اپنی کوتاہی دور کرنے کے بجائے آدمی ہمیشہ دوسرے میں خرابی دیکھتا ہے بندے کی یہ خامی ہے کہ میں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں اور ہمیشہ دوسرے کی خامی بیان کروں گا۔ہماری ریڈیو کی ایک یونین ہوا کرتی تھی۔ اس میں ہم کچھ نئی باتیں سوچتے تھے۔ اپنے آپ کو یا کارکردگی بہتر بنانے کیلئے اور سننے والوں کو آسانیاں عطا کرنے کیلئے۔ اس دور میں ریڈیو کا خاصا کام ہوا کرتا تھا۔ ہماری یونین کے ایک صدر تھے۔ انہوں نے ایک روز میٹنگ میں یہ کہا کہ ظاہر ہے کہ اجلاس میں آپ خرابیاں ہی بیان کریں گے اور میں آپ لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ تیرہ اور پندرہ منٹ تک جتنی برائیاں بیان کر سکتے ہیں، کریں۔ لیکن پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں ہمارا ریڈیو سٹیشن نیا نیا بنا تھا تو ایک روز بارش میں ہم سب بیٹھ کر اس کو تعمیر کرنے والے کو سنانے لگے کہ ایسا ہی ہونا تھا، بیچ سے پیسے جو کھالئے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک ساتھی قدیر ملک وہ صوتی اثرات کے ماہر تھے، وہ سائیکل بڑی تیز چلاتے تھے۔ دبلے پتلے آدمی تھے، وہ تیزبارش میں سائیکل لے کر غائب ہوگئے، ان کے گھر میں پرانا کنستر کا ایک ٹکڑا پڑا تھا، وہ اسے لے آئے اور چھت پر انہوں نے کنستر کے ٹکڑے کو ٹیڑھا کرکے ایک اینٹ نکال کر فکس کر دیا، اس طرح پر نالہ بن گیا اور چھت کا اور بارش کا پانی کمرے میں آئے بغیر شرررر۔۔۔ کرتا باہرگرنے لگا۔ ہم نے کہا کہ بھئی یہ کیا ہوگیا ابھی بوچھاڑ اندر کو آرہی تھی، تو قدیر ملک کہنے لگا، پتہ نہیں کیا ہوگیا لیکن اب تو ٹھیک ہوگیا ہے، بیٹھ کر کام کرو۔ بڑے برسوں کے بعد جب ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی چائے وائے پیتے ان سے کسی شخص نے اس حوالے سے پوچھا تو اس نے اصل بات بتائی۔ (اشفاق احمد کے ریڈیو پروگرام سے اقتباس)