ایک صبح جب میں جاگا اور میں باہر نکلا تو میرے شہر کے در و دیوار بدل گئے‘ انکے اوپر اتنے بڑے بڑے ہورڈنگ‘سائن بورڈ اور تصویریں لگ گئی ہیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں جو پکار پکار کر مجھے کہہ رہی تھی کہ مجھے خریدو‘ مجھے لو‘ مجھے استعمال کرو‘ میں ان کو نہیں جانتا تھا‘آپ یقین کریں آج سے ستر برس پہلے بھی میں زندہ تھا‘ میں خدا کی قسم کھاکے کہہ سکتا ہوں کہ میں آج سے پہلے زندہ تھا اور بڑی کامیابی کے ساتھ زندہ تھا اور صحت مندی کیساتھ زندہ تھا اور اب اس بڑھاپے میں میری انکم کاستر فیصد حصہ ان آئٹمزپر خرچ ہورہا ہے جو آج سے 70 برس پہلے ہوتی ہی نہیں تھیں‘ 1960 ء میں یہ آئٹمز ہوتی ہی نہیں تھیں‘ یہ ایک بڑی ٹریجڈی ہے‘ آپ یقین کریں کہ 1960ء میں فوٹو سٹیٹ مشین کا کوئی تصور نہیں تھا کہ یہ کیا ہوتی ہے‘ اب مجھے اتنا فوٹو سٹیٹ کروانا پڑتا ہے کہ میں پیسے بچا بچا کر رکھتا ہوں‘ میرا پوتا کہتا ہے کہ دادا اس کی میں فوٹو سٹیٹ کروالاتا ہوں‘ جب میں کسی دفتر میں جاتا ہوں اور میں وہاں جا کر عرضی دیتا ہوں کہ جناب مجھے اپنی Date of Birth چاہئے تو سب سے پہلے وہ کہتے ہیں کہ جی اس کی دو فوٹو سٹیٹ کروالائیں‘ بھئی کیوں کروالاؤں؟ کہتے ہیں اس کا مجھے نہیں پتہ‘ بس فوٹو سٹیٹ ہونا چاہئے‘ آپ یقین کریں کہ جب میں بی اے میں پڑھتا تھا‘بہت دیر کی بات ہے تو وہاں ہمارا یک سکھ دوست ہرونت سنگھ تھا‘ اس نے مجھے کہا ہتھیلی آگے بڑھا‘ میں نے ہتھیلی آگے بڑھائی‘ اس نے ایک گندی لیس دار چیز میری ہتھیلی پر لگا دی۔ میں نے کہا ”ظالما! یہ تو نے کیا کیا‘ سکھا“ اس نے کہا‘ اس پر پانی گرا اور سر پر مل اور پھر دیکھ‘ میں نے اس پر پانی گرا کر سر پر ملا تو ”پھپھا پھپ“ جاگ بن گئی‘کہنے لگا اس کو شیمپو کہتے ہیں‘ ہم تو اس وقت لال صابن سے نہاتے تھے‘ اس نے کہا یہ میرے چاچے نے لندن سے بھیجی ہے۔ہمارے ملک میں شام کے وقت جب میں اپنے ٹی وی اشتہاردیکھتا ہو ں تو مجھے یہ پتہ چلتا ہے کہ میرے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کون سا شیمپو استعمال کیا جائے‘ ایک لڑکی کہتی ہے‘ خبردار جوئیں پڑجائیں گی‘ وہ شیمپو نہیں لگانا‘دوسری کہتی ہے‘ نہیں میں تو’ٹیکافوری‘ لگاتی ہوں‘ وہ کہتی ہے‘ مت لگا‘ ٹیکا فوری خراب ہوتا ہے ”چوچاچوچی کا“ اچھا ہے‘ میرے سارے بچے کہتے ہیں ہمیں فلاں شیمپو چاہئے۔جب میری شادی ہوئی تو وہ ایسا زمانہ تھا جب امیری اور تقاضے اتنے تھے نہیں‘ اور ہم (میں اوربانو قدسیہ)دونوں اچھے اور درمیانے درجے کے تھے اور ویسے زندگی بسر کر رہے تھے جیسے عام لوگ کرتے تھے لیکن خوش بہت تھے۔ یہ خواہش ہوتی کہ کچھ نہ کچھ اور کچھ ایسی چیزیں ہمارے گھر میں بھی اکٹھی ہوتی رہیں‘ جیسے نوبیاہتا جوڑے کو آرزو ہوتی ہے گھربنانے کی‘میری بیوی اپنے غریبی دعوے کے مطابق گھر میں ایسی چیزیں لاتی تھی جو اس کے گھر کو ایسی ہی عزت بخش سکیں جیسا کہ بڑے گھروں کو ملتی ہیں لیکن بے چاری کا بس نہیں چلتا تھا‘ پھر ہم اچانک بیچ میں امیر ہو گئے‘ ہمارے امیر ہونے کی ایک نشانی یہ تھی کہ ہمارے گھر میں نئی چیز آئی جو پہلے ہمارے گھر میں نہیں تھی‘وہ شیمپو کی شیشی تھی‘ اس زمانے میں کسی گھر میں شیمپو ہونے کا مطلب امیر ہونا تھا وہ نو روپے گیارہ آنے کی شیشی تھی رنگ اس کا گہرا سبز تھا اور اس کا منہ بڑا تنگ ہوتا تھا‘ہم نے امیر ہو کر اس شیمپو کیساتھ اپنے سر کو دھونا شروع کیا اور ہم اتنے خوش ہوئے کہ جیسے دنیا جہاں کی نعمت اور دولت ہمیں مل گئی ہو لیکن چونکہ مالی حالات کچھ اچھے نہیں تھے‘جب ہم وہ شیمپو استعمال کرتے تھے تو پہلے غسل خانے میں جا کر لال صابن سے سر دھوتے تھے‘ جب سردھل جاتا تھا تو ہم میں سے جو بھی نہا رہا ہوتا وہ اپنا گیلا ماتھا باہر نکالتا اورجو باہر ہوتا وہ اس شیشی کا ڈھکنا کھول کے شیمپو ایک ٹکا اس پر لگا کر فوراً شیشی سیدھی کر لیتا۔اچھا میں بات کر رہا تھا اپنی امارات کی‘ ہمارے امیر ہوچکنے کے بعد پھر ہم یہاں ایک امریکی اشاعتی ادار ے فرینکلن سے وابستہ ہوگئے مجھے اس ادارے سے ایک کتاب ترجمہ کرنے کاآرڈر مل گیا اور اس کے ایک ماہ بعد بانو قدسیہ کو بھی اس ادارے سے ایک کتاب مل گئی‘ ہم نے تین مہینے کی مدت میں اپنی انکم میں اچانک 5 ہزار روپے کا اضافہ کر لیا اس طرح اچانک 5 ہزار روپے مل جانے سے ہمارے پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے‘ بانو نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ہمارے گھر میں ایک بہت اعلیٰ درجے کی میز ہونی چاہئے۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ انہی دنوں کباڑیوں کے پاس کسی سفارتخانے کا سامان بکنے کیلئے آیا‘اس سامان میں ایک کمال کی میز تھی اس پر کم سے کم آٹھ افراد کو کھانا دیاجا سکتا تھا وہ ولائیت سے درآمد کی گئی تھی نہایت ہی اعلیٰ درجے کی تھی‘بانو کے بار باربھاؤ تاؤ کرنے سے کباڑیہ بھی تنگ آ گیااور جان چھڑانے کیلئے ایک دن کباڑیے نے بانو سے کہا کہ ”بی بی ریڑھالاؤ اوراسے لے جاؤ“ میرے پاس ایک طوطا تھا جس طرح کا سڑکوں پر نجومیوں نے کارڈ نکالنے کیلئے رکھا ہوتا ہے، اس کا رنگ اصلی طوطے کا تھا لیکن وہ گتے کا بنا ہوا تھا اور اس کے اندر لکڑی کا برادہ بھرا ہوا تھا، وہ طوطا دو آنے کا ملتا تھا اور اس کے ساتھ ربڑ کا دھاگہ بندھا ہوا ہوتا تھا، میں نے وہ طوطا لاکر وہاں رکھ دیا جہاں ماں نے تزئین وآرائش کی ہوئی تھی اور جہاں کھانے کاانتظام تھا، اگر شاید آج کی سمجھدار ماں ہوتی تو اس بھدے سے طوطے کو اٹھا کر پھینک دیتی اور کہتی کہ تم کیا بدتمیزی کررہے ہو لیکن وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی، وہ صرف ماں تھی اسے مامتا کے سوا اور کچھ نہیں آتا تھا، اس نے ایک رکابی کو اوندھا کرکے اس کے اوپر طوطا رکھ دیا اور جب ان کی سہیلیاں آئیں تو وہ انہیں بتانے لگیں کہ بھئی یہ طوطا اشفاق کا ہے جو اس نے خوبصورتی میں اضافہ کرنے کیلئے رکھا ہواہے‘ اتنے برس گزر جانے کے بعد مجھے خیال آتا ہے کہ وہ Gracious Heartedشفیق دل ان لوگوں کو کیسے مل جاتے تھے، میری یہ بڑی حسرت ہے کہ ایسا دل چاہے چند روز کے لئے ہی سہی مجھے بھی مل جائے۔ (اشفاق احمد کے ریڈیو پاکستان سے نشرپروگرام سے اقتباس)