جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں‘یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے‘اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں ہوتے ہیں اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی یہ بات میں تفریح کے طور پر کرتا ہوں تاکہ اپنے استاد کو بہت داد دے سکوں اور ان کا مان بڑھانے کے لئے اور ان کے سامنے عاجزی کیساتھ کھڑے ہونے کے لئے کہتا ہوں جس زمانے میں ہمارے استاد پطرس بخاری ہمیں گورنمنٹ کالج چھوڑ کر ’یواین او‘ میں چلے گئے تھے اور وہ نیویارک ہی میں رہتے تھے‘ جس علاقے یا فلیٹ میں وہ تھے‘ وہاں استاد مکرم بتاتے ہیں کہ رات کے دوبجے مجھے فون آیا اور بڑے غصے کی آواز میں ایک خاتون بول رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ کا کتا مسلسل آدھ گھنٹے سے بھونک رہا ہے اس نے ہماری زندگی عذاب میں ڈال دی ہے میرے بچے اور میرا شوہر بے چین ہوکر چارپائی پر بیٹھ گئے ہیں اور اس کی آواز بند نہیں ہوتی اس پر بخاری صاحب نے کہا کہ میں بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میرا کتا اس طرح سے Behave کررہا ہے لیکن میں کیا کروں میں مجبور ہوں اس پر اس خاتون نے غصے میں آکر فون بند کردیا اگلے ہی روز بخاری صاحب نے رات ہی کے دو بجے ٹیلی فون کرکے اس خاتون کو جگایا اور کہا کہ محترمہ! میرے پاس کوئی کتا نہیں ہے مجھے کتوں سے شدید نفرت ہے کل رات جو کتا بھونکا تھا‘وہ میرا نہیں تھا اب دیکھئے کہ انہوں نے کس خوبصورتی سے حال کو مستقبل سے جوڑا‘ یا میں یہ کہوں گا کہ ماضی کو مستقبل کے ساتھ جوڑا‘یہ بخاری صاحب کا ہی خاصا تھا۔ان دنوں میرا پوتا‘ جواب بڑا ہوگیا ہے عجیب عجیب طرح کے سوال کرنے لگا ہے‘ ظاہر ہے کہ بچوں کابڑا حق پہنچتا ہے سوال کرنے کا‘ اسکی ماں نے کہا کہ تمہاری اردو بہت کمزور ہے تم اپنے دادا سے اردو پڑھا کرو‘ وہ انگریزی سکول کے بچے ہیں اس لئے وہ زیادہ اردو نہیں جانتے خیر! وہ مجھ سے پڑھنے لگا اردو سیکھنے کے دوران میں وہ کچھ اور طرح کے سوالات بھی کرتا ہے پرسوں مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ دادا! یہ آمدورفت جو ہے اس میں عام طورپر کتنا فاصلہ ہوتا ہے؟(اس نے یہ لفظ نیا نیا پڑھا تھا) اب اس نے ایسی کمال کی بات کی تھی کہ میں اس کاکوئی جواب نہیں دے سکتا تھا۔اوکاڑہ میں ایک میلہ لگتا ہے(اب پتہ نہیں لگتا ہے یا نہیں کیونکہ میری جوانی کے زمانے میں لگا کرتاتھا)اور مجھے ان میلوں ٹھیلوں سے بہت دلچسپی ہے میں نے دیکھا کہ وہاں پر ایک پنگھوڑا لگا ہے اور اس کا مالک آٹھ آٹھ آنے لیکر گول گھومنے والے پنگھوڑے سے جھولے دے رہا ہے۔وہ پنگھوڑا آج کل کے پنگھوڑوں کی طرح بجلی یا مشین سے چلنے والا نہیں تھا بلکہ پنگھوڑے والا اسے ہاتھ کے زور سے گھماتا تھا میں وہاں بغیر کسی مقصد کے کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا تو ایک گاؤں کا آدمی وہاں آیا اس کی پگڑی کھل کر گلے میں پڑی ہوئی تھی اور اس نے کھدر کی تہبند باندھی ہوئی تھی وہ بھی اس پنگھوڑے کے لکڑی کے گھوڑے پر سوار”جھوٹے“(جھولے) لے رہا تھا جب ایک ”پور“(چکر)ختم ہوا اور سارے اتر گئے تو تب بھی وہ شخص وہیں بیٹھا رہا اور وہ اکڑوں حالت میں بڑی تکلیف اور پریشانی میں ویسے ہی گھومتا رہا جب وہ تیسرے چکر کے اختتام پر بھی نہ اترا تومیرا اس میں تجسس بہت بڑھ گیا اور میں نے آگے بڑھ کر اسے کہا کہ آپ نے ”جھوٹے“لے لئے ہیں اور آپ اترتے کیوں نہیں ہیں اگر آپ کو یہ چکر پسند ہیں تو پھر آپ کے چہرے پر خوشی ٗمزے اور بشاشت کے اشارے ہونے چاہئیں جو بالکل نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ جناب بات یہ ہے کہ یہ جو پنگھوڑے والا ہے اس سے میں نے تیس روپے لینے ہیں اور میں ہفتہ بھر سے اس کے پیچھے گھوم رہا ہوں اور یہ میرا قرضہ نہیں دے رہا ہے اور اب میں نے اس کا یہی حل سوچا ہے کہ میں اپنے قرضے کے بدلے اس کے پنگھوڑے پر ”جھوٹے“ لوں۔اب یہ میرا29واں پھیرا جا رہا ہے اور ہر مرتبہ میں آٹھ آنے کم کرتا جاتا ہوں اور اس طرح سے میں اپنا قرضہ واپس لے رہا ہوں۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات