اس موسم میں جو کہ چھٹیوں کا موسم ہے اور کچھ لوگ یہاں سے باہر جاتے ہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ کچھ وہاں کے لوگ یہاں بھی آتے ہیں۔پرسوں مجھے کینیڈا سے آ کر ہمارے ہاں چھٹی گزارنے والے دو صاحب ملے ان میں ایک پاکستانی بھی تھے ان سے ملاقات ہوئی جو بڑی اچھی تھی‘ ملاقات کے بعد جب انہوں نے مجھے اپنے وزٹنگ کارڈز دیئے تو ایک صاحب کے کارڈ پر کوئی سات کے قریب ڈگریاں درج تھیں اور دوسرے کے پانچ کے قریب تھیں‘ اب ظاہر ہے کہ ان ڈگریوں کامجھ پر بڑا رعب پڑا کیونکہ میں نے اتنی ساری ڈگریاں پہلے کسی کارڈ پر چھپی ہوئی دیکھی ہی نہیں تھیں‘میں ان کے کارڈز دیکھ کر بڑا مرعوب ہوا۔ ان سے باتیں کرنے کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ ڈگریوں کا یا وزٹنگ کارڈ پر دی ہوئی تفصیل کا انسان کی ذات سے ضروری نہیں کہ بڑا گہرا تعلق ہو اس کا اندر اور وجود اس سے مختلف بھی ہو سکتا ہے جو ہم کارڈ پر درج کوالی فیکیشن دیکھ کراس بارے اندازہ یا رائے قائم کر لیتے ہیں یہ انسان کی شخصیت اور اس کے اندر کے مطابق بھی ہو سکتا ہے‘ اس سے کم تر بھی ہو سکتا ہے‘خواتین و حضرات! بہت سے لوگ جو بہت ساری قابلیتیں لے کر ہمیں زندگی میں ملتے ہیں ظاہر ہے ان کا ہم پر بڑا رعب اور دبدبہ ہوتا ہے اور عام آدمی پر اس کا بہت اثر پڑتا ہے اور ہم اس بارے توقع اور آرزو رکھتے ہیں کہ یہ ہم سے بہتر آدمی ہے اور ہم بعض اوقات یہ توقع لے کر دفتروں میں بھی چلے جاتے ہیں اوربیورو کریسی سے بھی یہی توقع وابستہ کرتے ہیں کہ یہ ڈگریوں اور تعلیم میں بھی ہم سے آگے ہیں اور انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا جو بڑا ہی مشکل امتحان ہوتا ہے اور پھر اس سخت امتحان کو پاس کر چکنے کے بعد انہوں نے ایک خاص ٹریننگ حاصل کی ہے جس کے بعد انہیں اس مقام پربٹھایا گیا ہے اور اس سب کے بعد یہ لوگ ہمارے دل کی دھڑکنوں سے زیادہ واقف ہوں گے اور ہمارے دکھ درد کا مداوابہتر طور پر سکیں گے لیکن جب ہم ان کے ذرا قریب جاتے ہیں تو یہ ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب اپنی ان ڈگریوں‘ ٹریننگ اور کوالی فیکیشن پر پورا اتریں‘ جو وہ حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔اس ساری صورتحال سے یوں بھی خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے کہ انسانی زندگی میں یہ صورت حال چلتی رہتی ہے۔ میں ایک ڈپٹی سیکرٹری کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ وہاں ایک آدمی آگیا‘وہ ڈپٹی سیکرٹری صاحب اسے دیکھ کر گھبراگئے‘ حیرت اور گھبراہٹ سے اس سے کہنے لگے ہاں جی آپ کیسے یہاں آئے؟اس نے کہا کہ جی میں بڑے دروازے سے آیا ہوں‘ انہوں نے کہا کہ بڑے دروازے سے تو آئے ہو لیکن آپ کو آنے کس نے دیا ہے؟ اس نے کہا کہ جی وہاں پر جو دربان ہے اس نے مجھ سے کہا کہ آپ آج نہیں کل چلے جانا۔ یہ سن کر گھر چلا گیا۔ میں آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں‘وہ پوچھنے لگے کہ آپ اوپر کیسے آئے؟ وہ شخص کہنے لگا کہ جی میں سیڑھیاں چڑھ کر آیا ہوں‘میں نے لفٹ والے سے کہا تھا کہ مجھے اوپر لے جا لیکن اس نے کہا کہ یہ افسروں کی لفٹ ہے‘میں نے کہا کہ یہ دوسری لفٹ ہے اس سے بھیج دو تب اس نے کہا کہ یہ ڈپٹی سیکرٹری کی لفٹ ہے‘ میں نے کہا کہ یہ تیسری‘ اس نے کہا کہ یہ سیکرٹری صاحب کیلئے ہے اور اس لفٹ والے نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ نے اوپر جانا ہی ہے تو آپ سیڑھیاں چڑھ کر چلے جائیں اور میں سیڑھیاں چڑھتا چڑھتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا‘ ڈپٹی سیکرٹری صاحب نے کہا کہ آپ کو کیا کام ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے فلاں کام ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کام کیلئے آپ کو خط لکھنا چاہئے تھا‘اس شخص نے کہا کہ جی میں نے لکھا تھا‘تب انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں ملا‘ اس بیچارے شخص نے کہا کہ نہیں جی وہ آپ کو پہنچ جانا چاہئے تھا کیونکہ میں نے اسے رجسٹری میں ارسال کیا تھا‘اس پر ڈپٹی سیکرٹری صاحب نے کہا کہ اگر تم نے وہ بذریعہ رجسٹری بھیجا تھا تو ہمیں پہلے ڈاکخانے سے اسکی تصدیق کرنی چاہئے تھی کہ کیا وہ ٹھیک طرح سے ڈیلیور ہو گیا ہے کہ نہیں‘ اس نے کہا کہ میں جناب عالی ڈاکخانہ سے تحقیق کر چکنے کے بعد ہی حاضر ہوا ہوں‘ وہ ٹھیک ڈیلیور ہو گیاہے اور چودہ تاریخ کو آپ کے دفتر میں پہنچ گیا ہے‘ صاحب نے کہا کہ آپ کو فون کرنا چاہئے تھا‘آپ یہاں کیوں آ گئے؟ ڈپٹی سیکرٹری صاحب کی یہ باتیں سن کر وہ شخص شرمندہ اورپریشان ہو کر واپس سیڑھیاں اتر گیا اور جانے سے پہلے کہنے لگا اچھا جی میں پھر کسی کو لاؤں گا یا کوئی زور ڈلواؤں گا (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات