چند پرانی یادیں ۔۔۔۔۔

اب اس عمر میں پہنچ کر جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اتنا لمبا راستہ طے ہو چکا ہے کہ جہاں سے یہ سفر شروع کیاتھا اس کا کوئی اندازہ نہیں ہوپاتا‘ ایک لمبی سیدھی لکیر ہے جو نظر تو آتی ہے اور جس کے واقعات بھی ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے آگے تک چلے آتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتاکہ اتنا سارا لمبا سفر طے کرنے کے بعد آخر آپ نے اس کا نتیجہ کیا نکالا ہے۔ میں عرض کر رہا ہوں کہ میرے ذہن میں 1929ء1930ء اور اکتیس‘ بتیس کے واقعات گردش کر رہے ہیں جب میں سکول جا رہا ہوں۔ میری تختی ہے۔ میرا بستہ ہے پھر اس کے بعد میرے لئے 1935ء بہت ہی اہم سال تھا کہ جارج پنجم (اس وقت برصغیر میں انگریز حکمران تھا کی سلور جوبلی منائی جا رہی تھی اور بڑی دھوم سے منائی جا رہی تھی۔ اس وقت ہم سب لوگ‘ یعنی بچے بہت خوش تھے‘ ہمیں تالی بجانے کے نئے نئے طریقے سکھائے گئے تھے اور گورا فوج کا دستہ ہمارے گھر کے سامنے پریڈ کر رہا تھا اور ہم اس سے مرعوب ہو کر اس کے پیچھے پیچھے ویسے ہی چلتے تھے۔ وہ بھی عجیب و غریب زمانہ تھا‘ آپ لوگوں نے اس طرح کا غلامی کازمانہ نہیں دیکھا جو ہم دیکھ چکے ہیں۔ اس سلورجوبلی کی ساری یادیں میرے ذہن کے چوکٹھے میں پوری توانائی کے ساتھ اور پوری جزویات کے ساتھ قائم ہیں‘اس موقع پر ہمارے سکول میں لڈو بٹے تھے‘تین تین لڈو خاکی لفافے میں ڈال کر ہرطالب علم کو دئیے گئے تھے‘پہلی جماعت سے لیکر دسویں جماعت تک۔ پھر رات کے وقت ہمارے قصبے میں ایک مشاعرہ بھی ہوا تھا اور مجھے میرے والد سمجھاتے تھے کہ مشاعرہ کیا ہوتا ہے کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ اکٹھے ہو کر کیا بولتے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ایک شخص بولتا ہے تو سب واہ‘ واہ کر اٹھتے ہیں۔خواتین و حضرات پھر بالکل سکرین کے اوپر زمانہ بدلتا گیا اور اب بھی بدلتا چلا جا رہا ہے میں نے حیران ہوکر دیکھا کہ اس وقت ایک بہت بڑے سیٹھ لالہ نتھو رام تھے۔ ان کے پاس ایک بگھی تھی جس کے آگے دو گھوڑے جوتے جاتے تھے‘پھر اچانک زمانے نے ایسا پلٹا کھایا کہ ان کی بگھی کے آگے سے گھوڑے ہٹ گئے لیکن وہ بگھی پھر بھی چلتی رہی‘وہ سارے شہر کا چکر کاٹتی تھی اور ہم لوگ بڑے‘ بوڑھے تالیاں بجاتے ہوئے اس کیساتھ ساتھ بھاگتے تھے اور لالہ جی اس کے اندربیٹھ کر مزے کر رہے ہوتے تھے اس بگھی پر ربر کا بنا بھونپو(باجا) پاں پاں کی آواز بھی نکالتا تھا‘ہم نے گھر میں آ کر اپنی ماں کو بتایا کہ اب بگھی تو بدل گئی ہے اور گھوڑا اس کے آگے نہیں ہے لیکن چلتی پھر بھی ہے تو میری ماں نے بتایا کہ ہاں ایسی بگھیاں بھی ہوتی ہیں۔
فرانس کا ایک بہت بڑا رائٹر جسے میں دل و جان سے پسند کرتا ہوں وہ تقریباً تیس پینتیس برس تک فرانس سے غیر حاضر رہا اور جب وہ اس طویل غیر حاضری کے بعد لوٹ کر اپنے وطن آیا اور سیدھا اپنے اس محبوب گاؤں پہنچا جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ رائٹر کفسو کہتا ہے کہ جب وہ اپنے گاؤں پہنچا تو اس پر ایک عجیب طرح کی کیفیت طاری ہو گئی اور مجھے وہ سب چیزیں یاد آنے لگیں جو بچپن میں میں نے یہاں دیکھی تھیں لیکن ان کا نقشہ اس قدر واضح نہیں تھاجیسا کہ ان کا نقشہ اس وقت واضح تھا۔جب وہ چیزیں میرے قریب سے گزرتی تھیں اور میرے پاس تھیں‘ کفسو کہتا ہے کہ ایک عجیب واقعہ اسے یاد آیا کہ ایک ندی کی چھوٹی سی پلی پر سے جب وہ گزرا کرتا تھا تو اس کے داہنے ہاتھ پتھروں کی ایک دیوار تھی جس پر غیر ارادی طور پر میں اپنی انگلیاں اور ہاتھ لگاتا ہوتا چلتا جا تا تھا اور وہ آٹھ دس فٹ لمبی دیوار میرے ہاتھ کے لمس اور میں اس کے لمس کو محسوس کرتا رہا  میں اس دیوار پر ہاتھ پھیرتا ہوا پورے کا پورا راستہ عبور کر گیا لیکن وہ محبت او ر چاہت جو پتھر کی دیوار اور میرے زندہ جسم کے درمیان تھی‘ وہ مجھے میسر نہ آسکی میں پھر پلٹا لوٹ کے پھر اسی طرح گزرا پھر میں اتنا جھکا جتنا اس زمانے میں میرا قد ہوتا تھا اورپھر میں نے اس پر ہاتھ رکھا او ر میں اس قد کے ساتھ جب میں چھٹی ساتویں میں پڑھتا تھا‘ چلا تو میں نے محسوس کیا اور میرے ہاتھ نے محسوس کیا اور لگا جیسے میری ماں صحن خانہ میں کھڑی مجھے پکار رہی ہو اور اس کے ہاتھ میں Cookies ہوں جو وہ مجھے سکو ل سے واپسی پر دیا کرتی تھی۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)