امجد اسلام امجد وائس آف امریکہ جیسے بڑے ادارے میں اردو کے شعبے کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ براڈ کاسٹنگ ہاؤس کے باہر ایک مقررہ مقام پر عالی صاحب ایک شاندار مرسڈیز کے قریب چھتری تانے کھڑے تھے ان کے قریب ایک لمباتڑنگا سمارٹ سا ادھیڑ عمر گورا‘ فوجی قسم کی وردی پہننے آدھا بارش میں اور آدھا ایک شیڈ کے سائے میں کھڑا تھا جرنیلوں جیسے حلیے والے اس شخص نے بڑے تپاک سے ہمارے ساتھ ہاتھ ملایا اور مسکراتے ہوئے ’ہائے ہائے کہا عالی نے شاید اس خیال سے کہ کہیں ہم لوگ زیادہ مرعوب ہو کر اسے سلیوٹ ہی نہ مارنے لگ جائیں اردو میں بتایا کہ یہ اس کرائے کی گاڑی کا ڈرائیورہے جو یوسف چوہان نے ان کے لئے ہائر کی ہے میں نے ایک نظر اس چمکتی ہوئی گاڑی پر ڈالی اور پھر اس جرنیل نما شوفر کی طرف دیکھا اور اپنے شہر کی ٹیکسی کاروں کو دھیان میں لایا جن کے سفر میں ہروقت جان اور مال کا خطرہ رہتا ہے شوفر نے گاڑی کی ڈکی سے ایک اور چھتری نکالی اور اسے عابدہ کی طرف بڑھاتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں افضل کو اور مجھے مخاطب کیا کہ ’افسوس اس وقت کوئی اور چھتری موجود نہیں ورنہ آپ کی خدمت میں بھی پیش کرتا دو چھتریوں کی آڑ میں ہم چار افراد بارش کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے وی او اے کی عمارت میں داخل ہوئے استقبالیہ کاؤنٹر پر نام‘پتے اور آمد کی غرض وغایت لکھوانے کے بعد لفٹ کے ذریعے اردو شعبے میں پہنچے تو پہلی بار امریکہ اپنا اپنا سا لگا بالکل اپنے لاہور ریڈیو سٹیشن کا ساماحول تھا ویسی ہی اداسی اور بے ترتیبی‘ٹیپوں کے انبار‘پرانے اخبارات اور رسالے اور دیکھی بھالی دیسی شکلیں افضل رحمان نے جلدی جلدی ریکارڈنگ کے لئے ایک علیحدہ کمرے کا انتظام کیا جہاں بار بار میرا اور عالی کا رسمی قسم کا انٹرویو ہوا یہ انٹرویو اسی طرح کے چھوٹے پروفیشنل کیسٹ ریکارڈ پر ریکارڈ کیاگیا جیسے ہمارے ہاں عموماً صحافی حضرات استعمال کرتے ہیں وی او اے بڑے نام میں اردو سروس کے چھوٹے درشن دیکھ کر دکھ بھی ہوا ندیم صاحب کا کیا اچھا شعر ہے۔
بے وقار آزادی‘ ہم غریب ملکوں کی
سرپہ تاج رکھتے ہیں‘ بیڑیاں ہیں پاؤں میں
انٹرویو کے بعد عالی کی ایک امریکن دوست کی بیٹی اور اس کے شیرف شوہر سے ملاقات کا پروگرام تھا یہ دونوں گزشتہ رات مشاعرے میں آئے تھے اور اردو کا ایک لفظ نہ سمجھنے کے باوجود آخر تک بیٹھے رہے تھے لڑکی کا نام سوزین تھا عمر چوبیس پچیس برس تھی شوہر کا پورا نام پتا نہیں کیا تھا مجھ سے اس کا تعارف جم کہہ کر کرایا گیا وہ واشنگٹن کے کسی علاقے کا شیرف تھا اونچا لمبا‘ہٹا کٹا بات بات پر ہنسنے والا امریکن بیوی کے مقابلے میں شاید کم پڑھا لکھا یا اس سے زیادہ سمجھدار تھا کیونکہ جب عالی حسب عادت کسی پیچیدہ بین الاقوامی مسئلے پر بات کرتے تو وہ آنکھیں مٹکا کرمیری اور عابدہ کی طرف دیکھتا اور کوئی ہلکی پھلکی بات شروع کردیتا۔ایک اور جگہ امجد اسلام امجد ٹورنٹو کے سفرنامے میں اپنے مخصوص انداز کیساتھ نہ صرف اس شہر کا نقشہ کھینچتے ہیں بلکہ مزاحیہ واقعات کیساتھ قارئین کو محظوظ بھی کرتے ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ میرے میزبان جمال زبیری چونکہ خود ڈرائیونگ نہیں کرتے تھے اسلئے وہ عابد جعفری کو ساتھ لائے تھے۔ راستے میں جمال صاحب نے پہلے تو اپنی مزاحیہ شاعری کی غرض و غایت‘ تاریخ اور پس منظر پر روشنی ڈالی اور اسکے بعد کچھ کلام بھی سنایا‘پتا نہیں کیوں مجھے اسوقت مولانا چراغ حسن حسرت سے منسوب ایک واقعہ بہت یاد آیا۔مولانا حسرت کے پاس ’امروز‘کی ایڈیٹری کے دنوں میں سٹاف کا ایک آدمی کوئی فکاہیہ مضمون بغرض اشاعت لکھ کر لایا۔ حسرت صاحب نے سارا مضمون پڑھا اور پھر اپنے مخصوص انداز میں بولے۔”یہ کیا ہے۔۔۔؟۔۔۔مولانا!“”مزاحیہ مضمون ہے جناب۔“ مصنف نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا جمال صاحب بڑے مزے کے آدمی ہیں‘ ان میں سوائے اسکے کوئی خرابی نظر نہیں آئی کہ وہ اپنی ’مزاحیہ‘ شاعری کو بہت سنجیدہ لیتے تھے۔صبح ناشے کے دوران شکاگو سے افتخار نسیم کا فون آیا۔ معلوم ہوا وہ اور عرفان صوفی بڑی شدت سے انتظار کررہے ہیں‘اس فون کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لاس اینجلس سے لندن تک کے درمیان جو تین چار دن ابھی تک مسئلہ زیر بحث بنے ہوئے تھے ان کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ طے پایا کہ میں اور پروین شکاگو جائیں گے‘ عالی جی کچھ پرانے دوستوں سے ملنے کیلئے پٹس برگ روانہ ہوں گے اور جعفری صاحب براہ راست بمبئی کی فلائٹ پکڑیں گے‘ میں نے افتخار نسیم کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور اس کیساتھ ہی عرفان کو بھی فون پر اطلاع دیدی کیونکہ شکاگو اس سفر کے دوران میں پہلا شہر تھا جہاں قیام و طعام اور سیر وتفریح کا انتظام ہمیں خود کرنا تھا۔ناشتے کے بعد جمال زبیری کے ساتھ انکے گھر کے قریب ایک مقامی سٹور پر گئے جو اپنے طول وعرض‘ کشادگی اور اشیاء کی فراوانی کے اعتبارسے ہمارے یہاں کی بڑی بڑی مارکیٹوں کو شرماتا تھا۔ اگرچہ ہم برف میں سے چل کر آئے تھے مگر اندر درجہ حرارت ایسا خوشگوار تھا کہ ہم نے دو دوبار آئس کریم کھائی۔دوپہر کو اختر آصف کیساتھ ٹورنٹو کا سٹی ہال دیکھا جو بلاشبہ فن تعمیر کا ایک انوکھا شاہکارہے‘یہ عمارت ایک قوس کی شکل میں بنائی گئی ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے‘شاہی مسجد‘ لاہور کے صحن کی طرح اسکے سامنے بھی ایک وسیع وعریض سنگی پلیٹ فارم نما میدان تھا جسکے ایک کونے میں سکیٹنگ کورٹ بنا ہوا تھا جہاں کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں پاؤں میں سکیٹنگ شوز پہنے جیسے برف کے فرش پر اڑتے پھر رہے تھے۔سٹی ہال کے اردگرد کا علاقہ بہت گنجان آباد تھا لیکن ٹریفک میں سہولت کیلئے زیرزمین رستوں اور پارکنگ لائٹس کا بے حد معقول انتظام تھا چنانچہ شہر کی سڑکوں کے نیچے بھی اتنا ہی ہجوم تھا جتنا ان کی سطح پر تھا‘اردو شاعری میں موت کیساتھ زیرزمین ہونے کے جتنے مضامین ہیں سب کے سب وہاں انگشت بدنداں نظرآتے ہیں۔