خوبصورت نظارے۔۔۔۔۔

رضاعلی عابدی دریائے سندھ کے حوالے سے دلچسپ انداز میں لکھتے ہیں کہ پھر وہی دریائے سندھ کا کنارہ ہے اور وہی دونوں جانب لداخ کے اونچے بنجر پہاڑ جن کے دامن میں ہر طرف پتھر بکھرے ہیں اور گھاس کا ایک تنکا بھی نظر نہیں آتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ چاند پر اتر کر اس کا نظارہ کرنا مشکل ہو تو جا کر لداخ کی زمین دیکھ لو۔مگر میں چاند جیسی زمین نہیں ٗچاندی جیسا پانی دیکھنے لداخ گیا تھا ٗ سرحد پار تبت کے علاقے میں کیلاش کی پہاڑیوں سے نکل کر دریائے سندھ یہاں آگیا ہے اور میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں آپہنچا ہوں جو دیکھنے میں دریائے سندھ کے کنارے لیکن حقیقت میں ایک پہاڑی نالے کے قریب آباد ہے ٗدریا کافی نیچے گھاٹی میں ہے اور یہ نالہ جاکراس میں گر رہا ہے ٗ یہاں کچھ درخت لگے ہیں ٗچھ کھیت اُگے ہیں جنہیں وہ دریا نہیں ٗ یہ نالہ سیراب کر رہا ہے ٗکھیتوں کے بیچ پانچ دس کچے گھروندے ہیں اور ذرا اونچائی پر بھیڑ بکریوں کا ایک فارم ہے جہاں کوئی چرواہا گا رہا ہے۔یہ لداخ میں وہ جگہ ہے کہ مجھ جیسے غیر ملکیوں کو اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں ٗ میں دریا کے بہاؤ کیساتھ ساتھ اپنا سفر یہیں سے شروع کروں گا اور پانی کے ہاتھوں میں ہاتھ دیکر پہاڑوں پر چڑھتا ٗوادیوں میں اترتا ٗ میدانوں میں دوڑتا وہاں تک جاؤں گا جہاں تک یہ دریا جاتا ہے۔میں لداخ کے اس چھوٹے سے گاؤں کی کچی سڑک پر چلنے لگا ٗ دیکھتا جاتا تھا کہ اس میں کون رہتے ہیں کیسی زندگی گزارتے ہیں ٗ اس دریا کے بارے میں کیا کہتے ہیں اور ساری دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے یہ لوگ زبان کونسی بولتے ہیں؟میں نے پوچھا”آپ لوگوں کے گاؤں کا کیا نام ہے؟‘وہ بولے ’اُپشی‘مجھے صحیح جواب ملنے سے یادہ خوشی اس بات کی تھی کہ وہ میرا سوال سمجھ گئے تھے ٗاب میں نے پوچھا’آپ سب اسی گاؤں میں رہتے ہیں‘خیال تھا وہ کہیں گے ’ہاں‘ مگر جواب ملا’جی‘’آپ کے بچے پڑھنے جاتے ہیں سکول؟’جی‘آپ لوگ کیا کھیتی باڑی کرتے ہیں؟‘’جی‘’آپ کیا چیز اُگاتے ہیں؟یہی گیہوں ٗجو ٗشلغم ٗسرسوں ٗمٹر وٹر۔آپ مویشی پالتے ہیں؟خاموشی۔’میرا مطلب ہے آپ جانور پالتے ہیں؟جی۔’کون سے جانور پالتے ہیں؟بکرے ٗبھیڑیں ٗگائے۔آپ کے بچوں کا سکول کہاں ہے؟اوپر ہے‘وہ اوپر‘کتنے بچے ہیں اس سکول میں؟دس پندرہ۔بس؟ زیادہ بچے کیوں نہیں آتے؟اور اب پہلی بار میرے سوال کا ذرا طویل جواب ملا اور سارے دیہاتی ایک ساتھ بولنے لگے۔’یہ گاؤں چھوٹا ہے ٗپانچ چھ گھر ہیں ٗزیادہ گھر نہیں ہیں۔ ایک اور مقام پر رضاعلی عابدی رقمطراز ہیں اپشی سے ذرا اوپر بکریوں کا سرکاری فارم ہے جن سے پشمینہ حاصل ہوتا ہے وہی نرم اور ملائم اون کہ سرینگر میں جس کی ایک ایک سادہ اور معمولی شال بارہ بارہ ہزار روپے کی تھی‘ میں فارم میں پہنچا تو اسی چرواہے سے ملاقات ہوئی جو ابھی ان پتھریلی زمینوں میں نغموں کی فصلیں اگا رہا تھا‘اس کا نام محمد علی خان تھا‘ سیدھا سادہ‘ بھولا‘تمیز دار اور ہر بات میں سرسر کا اضافہ کرنے والا‘ محمد علی خان نے مجھے پشمینے کی بکریوں کے بارے میں کچھ بتایا اس فارم میں سات بکریاں ہیں سال میں ایک باران کے بالوں میں کنگھی کی جاتی ہے اور کنگھی میں پھنس کر جو ملائم بال اترتے ہیں‘وہی رئیسوں کی شالوں‘سوئٹروں‘جرابوں اور دستانوں میں ڈھل جاتے ہیں‘ایک ایک بکری سے دوسو سے لے کر پانچ سو گرام تک پشمینہ اترتا ہے یہ بکریاں بس یہیں اتنے اونچے علاقوں میں ہوتی ہے‘نیچے میدان انہیں راس نہیں آتے چونکہ قیمتی ہوتی ہیں اس لئے ان کی نگرانی کے لئے چرواہے رکھے جاتے ہیں وہ نہ ہوں تو پہاڑوں سے اترنے والے درندے انہیں کھا جائیں ان کی حفاظت کرتے کرتے چرواہوں کو ان سے لگاؤ تو ضرور ہوتا ہوگا بکریاں خود بھی اپنے چھوٹے چھوٹے دلوں میں اپنے ان رکھوالوں کے لئے وہ جذبہ محسوس کرتی ہوں گی جن کا ان کے ہاں کوئی نام نہ ہوگا بس یہ کہ ان میں کوئی تصنع نہ ہوگا کوئی بناوٹ نہ ہوگی کوئی غرض نہ ہوگی میں ان کے دلوں میں جھانک نہ سکا۔