اپنے پالے ہوئے روگ۔۔۔۔۔

میں ایک بار کچہری گیا‘ایک چھوٹا سا کام تھا اور مجھے باقاعدگی سے دو تین وہاں جانا پڑا‘کئی سیڑھیاں چڑھ اور اتر کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ بہت سے میری عمر سے بھی زیادہ عمر کے بابے کچہری میں بنچوں کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور مقدمے لڑر ہے ہیں‘میں نے اپنی عادت کے مطابق ان سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے ہیں۔ کہنے لگے جی ہمارا مقدمہ چل رہا ہے۔میں نے کہا کہ کب سے چل رہاہے‘ ایک بابے نے کہا کہ پاکستان بننے سے دو سال پہلے سے چل رہا ہے اور ابھی تک چلا جا رہا ہے‘ میں نے کہا کہ مقدمہ کس چیز کا ہے اس نے بتایا کہ ہماری نو کنال زمین تھی اس پر کسی نے قبضہ کرلیا ہے میں نے کہا کہ آپ دفع کریں‘ چھوڑیں اس قصے کو۔ وہ کہنے لگا کہ جی اللہ کے فضل سے بچوں کا کام بڑا اچھا ہے اور میں اس کو دفع بھی کردوں لیکن اگر مقدمہ ختم ہوجائے تو میں پھر کیا کروں گا‘ مجھے بھی تو ایک نشہ چاہئے۔ صبح اٹھتا ہوں کاغذ لے کر وکیل صاحب کے پاس آتا ہوں اور پھر بات آگے چلتی رہتی ہے اور شام کو میں گھر چلاجاتا ہوں تیسری دنیا اور بطور خاص ہم پاکستانی اس قدر دکھ کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں کہ جیسے ہمیں اس کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں رہا میرے ایک دوست ہیں انہیں آدھے سر کے درد کی شکایت ہے اور وہ ایسا طے شدہ درد ہے کہ ہفتے میں ایک مرتبہ بدھ کے دن شام کو تین بجے کے بعد ضرور ہوتاہے اور اس درد کا حملہ بڑا شدید ہوتا ہے لہٰذا وہ صاحب دو بجے ایک چھوٹے سے سٹول پر اپنی دوائیاں اور ایک بڑے سٹول پر اپنے رسالے اور کتابیں لیکر بیٹھ جاتے ہیں اور کتابوں کو پڑھتے ہوئے اس درد کے حملے کا انتظار کرتے رہتے ہیں‘وہ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور ساڑھے تین بجے ٹھاہ کرکے انہیں اٹیک ہوتا ہے جب وہ اٹیک ہوتا تو وہ سخت تکلیف میں کانپتے ہیں۔ پھر وہ ایک دوائی کھاتے پھر دوسری اور شام کے چھ بجے تک نڈھال ہو کے بستر پر لیٹ جاتے اور پھر صبح جاکے وہ بالکل ٹھیک ہوتے۔ ایک روز جب میں اور ممتاز مفتی ان سے ملنے گئے تو وہ اپنی دوائیاں رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے‘میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے‘کہنے لگے یہ میری دوائیاں ہیں اوراب میرے اوپر اٹیک ہونیوالا ہے اور میں ان دوائیوں سے اس کا سدباب کروں گا‘ان دنوں مفتی صاحب کو ہومیو پیتھی کا شوق تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہومیو پیتھک طریقہئ علاج میں ایک ایسی دوائی ہوتی ہے جو اس مرض کیلئے ہوتی ہے‘ ان صاحب نے کہا کہ نہیں میرے پاس یہ دوائیاں پڑی ہیں لیکن مفتی صاحب اپنے سکوٹر پر گئے اور جاکے دوائی لے آئے اور انہوں نے گول گول میٹھی سی گولیاں ان کے منہ میں ڈال دیں۔اب اللہ کی مہربانی اور اتفاق دیکھئے کہ پہلے ساڑھے تین بجے‘ پھر چار بج گئے اور پانچ بجے ان صاحب نے زور سے چیخ ماری اور پریشان ہوکر کہنے لگے کہ میری بیماری کہاں گئی‘وہ کہنے لگے کہ میرے ساتھ یہ دھوکا ہوا ہے‘ یہ کیوں ایسا ہوا ہے۔ اس کی بیوی کہنے لگی کہ یہ تو اچھی بات ہے لیکن ان صاحب نے رات بڑی بے چینی میں گزاری۔ اگلے دن وہ سی ایم ایچ گئے اور اس دوائی کو دکھایا۔ ہسپتال والوں نے اس دوائی کا ٹیسٹ کیا اور کہا کہ یہ کوئی دوائی نہیں ہے یہ تو میٹھا ہے۔ انہوں نے آکے مفتی صاحب سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ وہ کیا تھا۔مفتی صاحب نے کہا کہ یہ ہماری ایک مشہور دوائی ہے اور خاص طورپر آدھے سر کے درد کی شکایت کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ دوائی بالکل نہیں چاہئے‘خواتین و حضرات! وہ بیماری ہی ان کی محبوبہ ہوگئی تھی۔ اتنی پیاری کے نہ انہیں بیوی اچھی لگتی تھی نہ انہیں بچے اچھے لگتے تھے۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)