شاندار فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب میں بجلی سے چلنے والی کھڈیوں اور آرٹ کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ یہاں سلک کی گرم بازاری تھی۔ جسے دیکھو اس کے سر میں پاور لوم کاپرمٹ اور آرٹ سلک یارن کاامپورٹ لائسنس حاصل کرنے کا سودا سمایا ہوا تھا۔اسی دھماچوکڑی میں اگر کوئی سب سے پیچھے تھا تو وہ بے چارا پشتینی نور باف تھا جس کے آباؤ اجداد صدیوں سے کھڈیوں کی دستکاری کے ساتھ وابستہ چلے آ رہے تھے انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ سب سے پہلے ان لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جاتا اور اس کے بعد نئے آنے والوں کی باری آتی رجسٹرار آف کوآپریٹو سوسائٹیز کے ساتھ مل کر ہمارے محکمے نے اس سلسلے میں تھوڑی بہت کوشش بھی کی‘ لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی۔پاور لوُم کے پرمٹ مانگنے والوں کا زیادہ زور پانچ پانچ پاور لوم حاصل کرنے پر تھا اس کے ساتھ انہیں کافی مقدار میں آرٹ سلک یارن کا امپورٹ لائسنس مل جاتا تھا‘ جسے بلیک مارکیٹ کرکے خاطرخواہ منافع کمایا جا سکتا تھا۔ کچھ لوگ تو پاور لومز کا پرمٹ بھی دست بدست بلیک مارکیٹ میں بیچ ڈالتے تھے۔ معدودے چند لوگ جو اپنے پاور لوم خود چلانا چاہتے تھے وہ بھی اپنی مشینوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ بڑھاتے تھے‘ کیونکہ اس طرح وہ فیکٹری ایکٹ کی پابندیوں سے آزاد رہتے تھے۔ وزیر صاحبان جب دوروں سے واپس آتے تو ان کے جلومیں پرمٹ لینے والوں کا ایک جم غفیر لاہور پہنچ جاتا تھا اوروزیروں کی سفارشات سے مزین درخواستیں لے کر میرے دفتر کا گھیراؤ کر لیتا تھا اس سارے عرصہ میں فقظ ایک پرمٹ ایسا تھا جو میں نے اس قسم کی سفارش یادباؤ کے بغیر جاری کیا تھا ایک روز ہمارے ممتاز ادیب اور دانشور مسٹراے۔ حمید مجھے ملنے آئے وہ ان دنوں بے کار تھے اور پاور لوم کی کرشمہ سازی کا چرچا سن کرانہیں بھی اس لائن میں قسمت آزمائی کا خیال آیا۔ میں نے بڑی خاموشی سے انہیں چند پاور لوموں کاپرمٹ دے دیا دو ڈھائی ماہ بعد وہ پھر میرے دفتر میں آئے اور بولے اس کاروبار کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کام میرے بس کا روگ نہیں ہے یہ کہہ کر انہوں نے پرمٹ مجھے واپس کر دیا۔ اس کی دلنشین تحریروں کی طرح اس صاحب طرز ادیب کا کردار بھی اتنا صاف اور بے داغ تھا کہ اس نے اپنے پرمٹ کو بلیک مارکیٹ میں بیچنا بھی گوارا نہ کیا۔ میونسپلٹیوں کے نظام کے مطالعہ کے سلسلے میں مجھے ہالینڈ کے چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی جانا پڑتا تھا ایک جگہ میری رہائش کابندوبست ایک ایسے خاندان میں ہوا جس میں پانچ بیٹیاں اور چار لڑکے تھے۔اتوار کے روز سارے خاندان نے بائیسکلوں پر سوار ہوکر پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا گھر میں گیارہ بائیسکل موجود تھے جو میاں بیوی اور بچوں میں بٹ گئے میرے لئے بارہواں بائیسکل کسی ہمسائے سے عاریتاً مانگ لیاگیا ہمارا قافلہ سائیکلوں پر سوار ہوکر باہر نکلا تو چاروں طرف سڑکوں پر بائیسکل ہی بائیسکل نظر آئے ہالینڈ کی سرزمین اتنی ہموار ہے کہ بائیسکل کو یہاں پر قریباً قریباً قومی سواری ہونے کا درجہ حاصل ہے ہے بہت سی سڑکوں پر بائیسکل چلانے والوں کے لئے الگ الگ راستے ہیں کبھی کبھار ملکہ جولیانہ بھی سائیکل پر سوار ہو کر شہر میں نکل جاتی ہیں ہمارا قافلہ ایک پارک میں جاکر رکا بھوک سے میرا برا حال ہورہا تھا مجھے توقع تھی کہ اب ہماری خاتون خانہ لذت کام ودہن کا انتظام فرمائیں گی‘اس کے برعکس انہوں نے اپنا پر س کھولا اور پیپر منٹ سویٹ کی ایک ایک گولی تقسیم کرکے ہم سب کوہدایت کی ’اے چبانا مت‘ دھیرے دھیرے چوسنا‘اس سے تمہارا سانس مصفا ہوجائے گا۔گولیاں چوس کر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد اسی طرح بھوکے پیاسے پھر بائیسکلوں پر سوار ہوکر رخت سفر باندھا راستے میں ایک گاؤں سے گزر ہوا جہاں بڑا بارونق ہاٹ لگا ہوا تھا خوب گہما گہمی تھی اور طرح طرح کا مال واسباب بک رہا تھا ایک دکان پر گرما گرم مچھلی تلی جارہی تھی میں نے اس طرف ذراللچائی ہوئی نظروں سے دیکھا تو میری میزبان نے بڑی مروت سے پوچھا’تمہیں تلی ہوئی مچھلی پسند ہے؟ میں نے بڑے زور سے اثبات میں سرہلایا اور منہ میں سیروں پانی بھر کر انتظار میں کھڑا ہوگیا‘لیکن یہ مچھلی بھی پانی سے نہیں سراب سے پکڑی ہوئی تھی اس نے پاؤ بھر مچھلی تلواکر ایک مومی کاغذ میں لپیٹی اور اسے اپنے پرس میں حفاظت سے بند کرلیا جب ہم واپس گھر پہنچے تو ڈنر کا ٹائم قریب تھا خاتون خانہ نے تلی ہوئی مچھلی کو چورا چورا کرکے ایک پیالہ میں ڈالا اور اس میں ٹماٹر کی چٹنی اور سرکہ ملا کر لسئی بنالی اسے اس نے مکھن کی طرح بہت سے توسوں پر لگادیا ساتھ ہی بھاپ دیتے ہوئے سوپ کا بادیا اور ابلے ہوئے آلوؤں کا ڈھیر کھانے کی میز پر آگیا اور دن بھر کی مشقت کے بعد ہم اتوار کے خصوصی ڈنر سے سرخرو ہوگئے ایسے موقعوں کے لئے میں احتیاطاً بسکٹوں کے کچھ پیکٹ اپنے سوٹ کیس میں چھپا کر رکھا کرتا تھا میرا ارادہ تھا کہ بستر میں لیٹ کر رہی سہی کسر اپنے بسکٹوں سے پوری کرلوں گا‘لیکن اس کا موقع بھی ہاتھ نہ آیا‘ کیونکہ دوبڑے لڑکے میرے کمرے میں سوتے تھے اور وہ دیر تک آج کی پکنک کے خوشگوار پہلوؤں پر بڑی گرم جوشی سے تبصرہ کرتے رہے۔قدرت اللہ شہاب بنگال کے مشہور قحط سے پیدا حالات اور رویوں سے متعلق لکھتے ہیں کہ بڑی بڑی کشادہ سڑکیں دودھئی قمقموں کی مہتابی روشنی میں نہائی ہوئی تھیں، بازاروں کی دکانیں آراستہ وپیراستہ سازوسامان سے چمک دھمک رہی تھیں، خوش پوش بنگالی مرد کاروں، ٹیکسیوں میں، بسوں میں، ٹراموں میں، رکشاؤں میں اور پیدل ہنسی خوشی ادھر ادھر آجارہے تھے، کچھ اپنے آپ میں مست تھے، کچھ اپنے اپنے کاموں میں مست تھے، ان سب کی نگاہوں سے اللہ کی وہ بے شمار مخلوق اوجھل تھی جو ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں سڑکوں پر، فٹ پاتھوں پر، گلیوں میں، کوچوں میں، میدانوں میں بھوکے پیاسے کیڑے مکوڑوں کی طرح سسک سسک کر رینگ رہی تھی، زندگی کی دو مختلف دھارے ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ا طرح رواں دواں تھے جیسے متوازی خطوط جو آپس میں کبھی نہیں ملتے۔ بنگال کی قحط بلائے ناگہانی کانتیجہ کم اور حکومت کی بدانتظامی کا نتیجہ زیادہ تھا، مشرق بعید میں ملک پر ملک فتح کرنے کے بعد اب جاپانی فوجیں آسام کی سرحد پر ہندوستان کا دروازہ کھٹکھٹارہی تھیں، کلکتہ اور مدراس پر جاپانی ہوائی حملے ہو چکے تھے، بنگال کے ساحلی علاقوں میں خفیہ آبدوز کشتیوں کے ذریعے جاپانی ففتھ کالم کے ایجنٹوں کے اترنے کی خبریں بھی متواتر پھیل رہی تھیں، 1942ء کی Quit Indiaتحریک کے بعد برٹش گورنمنٹ بھی تذبذب میں تھی کہ اگر جاپان نے واقعی حملہ کیا تو خدا جانے مقامی آبادی کس کا ساتھ دے، بنگال مین سبھاش چندربوس کے فارورڈ بلاک کا خاصا اثر تھا، اس لئے جاپانی حملے کی صورت میں اس صوبے کی وفاداری کے متعلق حکومت کے ذہن میں بہت بڑا سوالیہ نشان تھا، ان تمام خطرات کے پیش نظر حکومت نے ایک طرح کی Scorched Earth Policyکو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنالیا، اس پالیسی کے تحت صوبے میں چند بڑے بڑے Procurement Agentsمقرر کردیئے گئے، انہوں نے شہروں اور بڑے بڑے دیہاتوں میں جگہ جگہ اپنے گودام کھول لئے اور ایڈمنسٹریشن کی مدد سے دھان اور چاول کی ساری فصل سستے داموں خرید خرید کر گوداموں میں منتقل ہو گئی، یہ ذخیرے زیادہ تر حکومت کی اپنی سول اور ملٹری ضروریات پوری کرنے کیلئے کام میں لائے جاتے تھے، ان کے متعلق مستقل احکام یہ تھے کہ جاپانیوں کی پیش قدمی کی صورت میں ان سب کو جلا کر تباہ کردیا جائے تاکہ خوراک کا کوئی ذخیرہ دشمنوں کے ہاتھ میں نہ آنے پائے۔جو تھوڑا بہت چاول پروکیورمنٹ ایجنٹوں کی دسترس سے بچ رہا تھا اسے مقامی زمینداروں، نیوں اور امیر لوگوں نے دھونس، دھاندلی یا لالچ کے زور سے خرید کر اپنے اپنے ذاتی ذخیروں میں جمع کرلیا، رفتہ رفتہ اناج کی منڈیاں بند ہو گئیں، کاشت کاروں کے اثاثے ختم ہو گئے اور زمینداروں اور بنیوں کے چاول کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔