طالبان کی فتح پر امریکی رد عمل

ہر اتوار کے دن امریکہ میں مختلف نیوز نیٹ ورکس پر ریاستی اداروں کے سربراہوں سے اہم قومی اور بین الاقوامی امور پر مکالمہ ایک برسوں پرانی روایت ہے اتوار پندرہ اگست کا دن کچھ مختلف نہ تھا مگر تمام بڑے کیبل نیوز چینلز پر کابل کے صدارتی محل کے کمروں میں طالبان کے بندوقوں سمیت براجمان ہونے کی ویڈیونے اس دن کو خاصا ڈرامائی بنا دیا تھا دو ڈھائی گھنٹے تک طالبان کی فتح پر امریکی تجزیہ نگاروں کی گفتگو سن کر مجھے محسوس ہوا کہ یہ ملک غصے‘ رنج و غم اور پشیمانی کی کیفیتوں سے نبرد آزما ہے ایک دانشور نے اسے Soul Searching Moment کہا اسکا آسان ترجمہ گریبان میں جھانکنے کا لمحہ ہو سکتا ہے تین بڑے نیوز چینلز جن میں CNN, FOX  اور MSNBC شامل ہیں پر ماہرین نے Saigon Moment‘ صدر بائیڈن کے عجلت میں انخلا کے فیصلے‘ عالمی سیاست میں امریکہ کے کردار‘  طالبان کے افغانستان میں خواتین کے مستقبل اور امریکہ کی مدد کرنیوالے افغان مترجمین اور دیگر اہلکاروں کیلئے ایمیگرنٹ ویزوں کے مسائل پراظہار خیال کیا ان موضوعات میں سائیگاؤں مومنٹ پر سب سے زیادہ گفتگو ہوئی اسکے بارے میں کہا گیا کہ یہی وہ لمحہ تھا کہ جسے ہم دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے اور یہی وہ لمحہ تھا جو ایک بار پھر ہمارے سامنے آکھڑا ہوااس روز MSNBCکے اینکر پرسن Chuck Todd نے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن سے پوچھا کہ اسوقت جو کچھ کابل میں ہو رہا ہے کیا یہ بالکل وہی کچھ نہیں جو اپریل 1975 میں سائیگاؤں میں ہوا تھا انٹونی بلنکن نے جواب دیا  Not at all, it  is an orderly and planned evacuation یعنی کابل سے جس طرح امریکی سفارتخانے کے عملے کو نکال کر محفوظ مقام تک پہنچایا گیااسکا تقابل سائیگاؤں میں امریکی عملے کے اخراج سے نہیں کیا جا سکتا اسکی وجہ یہ ہے کہ کابل سے امریکیوں کو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق نکالا گیا ہے سیکرٹری بلنکن نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں ہمارے جو اہداف تھے انہیں ہم نے حاصل کرلیا ہے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا اور القاعدہ کو مفلوج کر دیا گیا Chuck Todd نے اختلاف کرتے ہوے کہا کہ یہ ہر اعتبار سے ایک Chaotic Evacuation  تھی کیونکہ ہمیں آخری چند دنوں میں چھ ہزار فوجی بھجوانے پڑے تاکہ سفارتخانے کے سٹاف کو بحفاظت کابل سے نکا لا جا سکے ٹونی بلنکن نے جواب دیا کہ اسے Chaoticاسلئے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اخراج ہمارے طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوا ہے بعد ازاں اسی نیٹ ورک پر انٹرویو دیتے ہوے سابق ایڈمرل James Staveridis نے سائیگاؤں اور کابل سے اخراج کا تقابل کرتے ہوے کہا  It is a fair comparison, all things considered یعنی تمام عوامل کا جائزہ لیتے ہوے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مناسب مماثلت ہے۔چند روزپہلے نیویارک ٹائمز نے جنوبی ویتنام سے چھیالیس برس قبل امریکہ آ کر آباد ہونیوالے ریٹائرڈ لیفٹننٹ کرنل Uc Van Nguyen کا انٹرویو شائع کیا تھا ان سے ویتنام اور افغانستان کی جنگوں میں مماثلت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ دونوں ممالک میں امریکی حکمت عملی میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں ”ہم ویتنام میں بھی لڑنا چاہتے تھے مگر کمک نہ تھی‘ پٹرول نہ تھا‘ راکٹ نہ تھے اور امریکہ نے جس مدد کا وعدہ کیا تھا وہ بھی ہمیں نہ ملی آخر میں ہمیں یقین ہو گیا کہ ہمارے ساتھ بے وفائی کی گئی“  Van Nguyen نے کہا کہ اس سے زیادہ مماثلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ ”جلدی میں انخلا کیا گیا‘ دشمن نے امن معاہدے کی خلاف ورزی کی اور امریکی فوج اچانک سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلی گئی“ ویتنامی امریکن نے کہا In both conflicts brunt of the fighting fell on local forces یعنی دونوں جنگوں میں جنگ کا سارا بوجھ مقامی فوجیوں پر آ گراVan Nguyen نے کہا کہ اس طرز عمل کا نتیجہ ویت نام میں یہ نکلا کہ American helicpters were whisking desperate throngs from the roof of  the United States embassy یعنی امریکی ایمبیسی کی چھت سے اڑنے والے ہیلی کاپٹروں سے مایوس لوگ لپٹے ہوئے تھے اس ریٹائرڈ فوجی نے چند روز پہلے یہ پیشگوئی کی تھی کہ اسے کابل میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوا نظر آرہا ہے کابل میں پندرہ اگست کے دن ایسا تونہیں ہوا مگر دھویں میں لپٹے ہوے حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی جو صورتحال تھی وہ  ایک گہرے انتشار کا پتہ دے رہی تھی۔صدر بائیڈن کے عجلت میں کئے گئے انخلا کے فیصلے پر اتوار کے دن فاکس نیوز کے ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوے سابقہ صدر جارج بش کی پریس سیکرٹری Dana Perino نے کہا کہ یہ درست ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت افغان جنگ کا خاتمہ چاہتی تھی مگر اسکے ساتھ جڑا ہوا سوال یہ ہے کہ کیا امریکی عوام اس جنگ کا خاتمہ اسی طرح چاہتی تھی کہ جس طرح ہوا ہے اور اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا کیا اب ہم صرف تماشہ کریں گے یا اس خطے میں ہمارا کوئی کردار ہے جسمیں ہم نے کھربوں ڈالر انڈیل دئے واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار David Ignatius نے فاکس نیوز کے ٹاک شو میں کہا کہ This administration was caught off guard by the speed of the Taliban takeover  یعنی طالبان کے قبضے کی سپیڈ نے اس انتظامیہ کو بے خبری میں جا لیا۔افغان جنگ پر کئی کتابوں کے مصنف‘ سی آئی کے سابقہ اہلکاراور سی این این کے تجزیہ نگار پیٹر برگن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ اگر سوچ سمجھ کر فیصلے کرتی تو اس تباہی سے بچا جا سکتا تھا ڈونلڈ ٹرمپ دور کے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا کہ مشکل فیصلے ہر صدر کو کرنا پڑتے ہیں مگر جس طرح سے جو بائیڈن نے افغانستان سے انخلا کیا ہے اس نے امریکی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے اینکر پرسن نے پوچھا کہ صدر ٹرمپ نے تو یکم مئی سے پہلے انخلا کامعاہدہ کیا تھا پومپیو نے جواب دیا کہ وہ تو ٹھیک ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ اس طرح عجلت اور بد حواسی میں کبھی بھی انخلا نہ کرتا صدر بائیڈن کے دفاع میں ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ یہ جنگ جب بھی ختم ہوتی اس نے اسی طرح ختم ہونا تھا یہ بحث چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔