یہ خواب ہم نے بیچا تھا۔۔۔۔۔۔۔

پیر سولہ اگست کے دن چار بجے صدر بائیڈن نے افغانستان کی صورتحال پر قوم سے خطاب کرنا تھا اس وقت سے کچھ دیر پہلے ٹیلی ویژن دیکھا تو ایک ویڈیو کلپ کئی نیوز نیٹ ورک سے بار بار دکھائی جا رہی تھی اس سے ایک دن پہلے کابل کے صدارتی محل میں طالبان کے براجمان ہونے کی ویڈیو دن بھر چلتی رہی آج کابل ایئر پورٹ کے رن وے پر بیسیوں افغانوں کے ایک ٹیک آف کرتے ہوے C-17 جہازکے پیچھے بھاگنے کی ویڈیو خبروں پر چھائی ہوئی تھی اس میں لوگ جہاز کے پروں کے نیچے‘  پہیوں کے آگے اور ارد گرد بھی بھاگتے ہوے نظر آرہے تھے اس کے ساتھ کافی بلندی سے جہاز سے چپکے ہوئے ایک شخص کے گرنے کی ویڈیو بھی افغانستان سے نکلنے والوں کی بے بسی اور بیچارگی کی حقیقت بیان کر رہی تھی اس دلدوز منظر کی رپورٹنگ کے دوران بتایا جا رہا تھا کہ اس روز جہاز سے چمٹے ہوے تین افراد فضا سے زمین پر گر کر ہلاک ہوے تھے یہ المناک مناظر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے تھے ان پر ہونے والا تبصرہ کسی تباہی اور المیے کا پتہ دے رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے ہاں جب کبھی پولیس لاٹھی چارج کرتی ہے تو اکثر لوگوں کے ہجوم سڑکوں پر بھاگتے ہوے نظر آتے ہیں یہ منظر ٹیلی ویژن نیوز میں دکھایا تو  جاتا ہے مگر اسے غیر معمولی نہیں سمجھا جاتا امریکہ میں تینوں کیبل نیٹ ورکس پر تبصرہ کرنے والے ماہرین نے اتنی فصاحت اور صراحت سے اس منظر کی گرہ کشائی کی کہ مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگا خیال آیا کہ ہم آخر اتنے حساس کیوں نہیں پھر جوں جوں میں ان ماہرین کو سنتا گیا میری سمجھ میں آنے لگا کہ یہ سب اہل فکرو نظر افغانوں کی بے بسی اور مجبوری کو ہویدا کرنے والے اس منظر کی آڑ میں اپنا سیاسی نظریہ بیان کر رہے تھے۔ مجھے اب بھی ان کی انسانی ہمدردی اور درد مندی پر شبہ نہیں مگر افغانستان میں تیزی سے کھلنے والے اس منظر نامے کو چند لفظوں میں بیان کرنے کے بعد بعض تجزیہ نگار صدر بائیڈن کے لتے لینا شروع کر دیتے تھے اور بعض انکی حمایت میں کمر بستہ ہو جاتے تھے یہ صاف نظر آرہا تھا کہ بائیڈن کے مخالفین کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ انکا نقطہ نظر اس منظر نامے پر چھایا ہوا تھا خاص طور پر ریپبلیکن پارٹی کے حمایتی نیٹ ورک فاکس  نیوز پر تو رائی کا پہاڑ بنا کر صدر امریکہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا اس قسم کی تجزیہ نگاری کو Hype, Twist یا  Angling کہا جاتا ہے یہ ماہرین ادھر ادھر کی ہانکنے کی بجائے ٹھوس تاریخی حوالوں سے اپنی بات ثابت کر رہے تھے ٹیکساس کے ریپبلکن کانگر یس مین Michael McCaull نے کہا کہ کابل ایئر پورٹ پر نظر آنے والی افراتفری ثابت کرتی ہے کہ This is an unmitigated disaster یعنی یہ سراسر ایک تباہی ہے طالبان حکومت کے بارے میں انہوں نے کہا Afghanistan will return to a pre 911 state, a breeding ground for terrorismیعنی افغانستان نو گیارہ سے پہلے کی صورتحال کو لوٹ کر دہشت گردوں کی نرسری بن جائے گا۔اسی روز صدر بائیڈن کے خطاب سے پہلے ساؤتھ کیرو لائنا سے ریپبلکن پارٹی کے سینئر سینیٹرلنڈزے گراہم نے کہا ”بائیڈن خارجہ پالیسی کو نہیں سمجھتا ہم دوسرے نو گیارہ کی طرف بڑھ رہے ہیں ہم نے بیس برسوں میں جو کچھ کیا آج وہ سب ضائع ہو گیا ہے‘ صدر بائیڈن کو چین‘ روس اور پاکستان کو کھلے لفظوں میں کہہ دینا چاہئے کہ انہوں نے اگر طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تو اسکے نتائج کیلئے انہیں تیار رہنا چاہئے اور اسکے ساتھ ہی طالبان تک ہمارا یہ پیغام پہنچ جانا چاہئے کہ اگر انہوں نے ہمارے سفارتی عملے اور افغان مدد گاروں کو کابل سے نکالنے میں رخنہ اندازی کی تو ہم اس کا جواب طاقت سے دیں گے“ سینیٹر گراہم کی غیض و غضب والی گفتگو سن کر میں سوچنے لگا کہ صدر بائیڈن بھی کہیں طیش میں آکر طالبان کو جنگ کی دھمکی نہ دے ڈالیں۔ چھیاسٹھ سالہ سینیٹر گراہم 1982 سے سینیٹر چلے آرہے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نیشنل سکیورٹی اور فارن پالیسی کے مسائل کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں بڑی برد باری اور اعتماد کیساتھ افغان جنگ اور طالبان کی حکومت کے بارے میں اپنا مؤقف بیان کیا  وہ سارا دن میڈیا پر ہونیوالی الزام تراشی سے بے نیاز نظر آ رہے تھے صدر امریکہ نے امریکنوں کو یقین دلایا کہ افغان جنگ کو ختم کرنے کا فیصلہ اسلئے صائب ہے کہ اسے مزید جاری رکھنا امریکہ کے قومی مفاد میں نہیں ہے‘  انہیں اپنے فیصلے پر کسی قسم کی پشیمانی نہیں ہے‘ امریکہ کے دشمن چاہتے ہیں کہ ہم اربوں ڈالر اس نا تمام جنگ پڑ خرچ کرتے رہیں‘ میں اس جنگ کو لڑنے والا چوتھا امریکی صدر ہوں اور میں اسے پانچویں صدر کو منتقل نہیں کروں گا‘ میں نے انتخابی مہم کے دوران لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ میں یہ جنگ ختم کروں گا میں نے اپنی کمٹمنٹ پوری کر دی ہے“ صدر بائیڈن کی تقریرپر تبصرے کیلئے سی این این نے چوٹی کے چھ ماہرین بلائے ہوئے تھے ان میں سب سے مؤثر اور مدلل تبصرہ کابل میں موجود خاتون صحافی Clarissa Ward  نے کیا انکا کہنا تھا کہ ”افغان اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے ہمیشہ انکے ملک میں نہیں رہناتھا‘  انہیں توقع تھی کہ صدر امریکہ اسطرح اچانک انہیں چھوڑ دینے پر معذرت کریں گے‘ افغان آج یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ انکا مستقبل کیا ہے انہیں جمہوریت‘ آزادی‘ رول آف لا اور انسانی حقوق کا خواب کیوں دکھایا گیا‘  یہ خواب ہم نے بیچا تھا اسلئے افغانوں کو ان کے سوالوں کے جواب دینا ضروری تھاصدر بائیڈن نے اپنے عوام سے کیا ہوا وعدہ تو پورا کر دیا مگر جو وعدے امریکی صدور نے افغان عوام سے کئے تھے ان کا کیا بنا ان میں سے کوئی وعدہ بھی پورا نہیں ہوا اسلئے صدر بائیڈن کے الفاظ کھوکھلے اور بے جان تھے“ امریکہ نے اگر یہ خواب افغانوں کو نہ دکھائے ہوتے توآج انہیں اپنا ملک اتنا برا نہ لگتا کہ وہ جہازوں سے لٹک کر اسے چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے یہ خواب دیکھنے سے پہلے جو روکھی سوکھی انہیں مل رہی تھی اسی پر وہ صبر شکر کر کے گذارہ کر رہے تھے اس طرح کے خوابوں کے بارے میں زبیر ْقیصر کا شعرہے
اب اس سے بڑھ کے بھلا مفلسی اور کیا ہو
تمام شہر نے اک خواب پر گزارہ کیا
شعیب منصور نے خوابوں کے بارے میں کہا ہے
اب آنکھ لگے یا نہ لگے اپنی بلا سے
اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا ہے